1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب صلاة العيدين
کتاب: نماز عیدین کا بیان
253. باب صلاة العيدين
253. باب: نماز عیدین کا بیان
حدیث نمبر: 505
505 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: شَهِدْتُ الْفِطْرَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ يُصَلُّونَهَا قَبْلَ الْخُطْبَةِ، ثَمَّ يُخْطَبُ بَعْد خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ حينَ يُجْلِسُ بِيَدِهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ يَشُقُّهُمْ، حَتَّى جَاءَ النِّسَاءَ، مَعَهُ بِلاَلٌ فَقَالَ: (يَأَيُّهَا النَّبيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ) الآيَةَ ثُمَّ قَالَ حينَ فَرَغَ مِنْهَا: آنْتُنَّ عَلَى ذلِكِ فَقَالَتِ امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ، لَمْ يُجِبْهُ غَيْرُهَا: نَعَمْ قَالَ: فَتَصَدَّقْنَ فَبَسَطَ بِلاَلٌ ثَوْبَهُ، ثُمَّ قَالَ: هَلُمَّ لَكُنَّ فِدَاءً أَبِي وَأُمِّي فَيُلْقِينَ الْفَتَخَ وَالْخَوَاتِيمَ فِي ثَوْبِ بِلاَلٍ
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر، عمر اور عثمان (ضوان اللہ علیہم اجمعین) کے ساتھ عیدالفطر کی نماز پڑھی ہے یہ سب حضرات خطبہ سے پہلے نماز پڑھتے اور بعد میں خطبہ دیتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے) اٹھے میری نظروں کے سامنے وہ منظر ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ہاتھ کے اشارے سے بٹھا رہے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں سے گذرتے ہوئے عورتوں کی طرف آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اے نبی! جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کے لئے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی چوری نہ کریں گی زنا کاری نہ کریں گی اپنی اولادوں کو نہ مار ڈالیں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی امر شرعی میں تیری نافرمانی نہ کریں گی تو تو ان سے بیعت کر لیا کر اور ان کے لئے خدا سے بخشش طلب کر بے شک اللہ تعالیٰ بخشش اور معافی کرنے والا ہے (الممتحنہ۱۲) پھر جب خطبہ سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کیا تم ان باتوں پر قائم ہو؟ ایک عورت نے جواب دیا کہ ہاں ان کے علاوہ کوئی عورت نہ بولی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیرات کے لئے حکم فرمایا اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا دیا اور کہا کہ لاؤ تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں چنانچہ عورتیں چھلے اور انگوٹھیاں سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 505]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 13 كتاب العيدين: 19 باب موعظة الإمام النساء يوم العيد»

حدیث نمبر: 506
506 صحيح حديث جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّى، فَبَدَأَ بِالصَّلاَةِ، ثُمَّ خَطَبَ، فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ فَأَتَى النِّسَاءَ فَذَكَّرَهُنَّ، وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى يَدِ بِلاَلٍ، وَبِلاَلٌ بَاسِطٌ ثَوْبَهُ، يُلْقِي فِيهِ النِّسَاءُ الصَّدَقَةَ
سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر کی نماز پڑھی پہلے آپ نے نماز پڑھی بعد میں خطبہ دیا جب آپ خطبہ سے فارغ ہو گئے تو اترے اور عورتوں کی طرف آئے پھر انہیں نصیحت فرمائی آپ اس وقت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کا سہارا لئے ہوئے تھے سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا رکھا تھا جس میں عورتیں صدقہ ڈال رہی تھیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 506]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 13 كتاب العيدين: 19 موعظة الإمام النساء يوم العيد»

حدیث نمبر: 507
507 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالاَ: لَمْ يَكُنْ يُؤَذَّنُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَلاَ يَوْمَ الأَضْحَى
سیّدنا ابن عباس اور سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عیدالفطر یا عیدالضحی کی نماز کے لئے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے عہد میں) اذان نہیں دی جاتی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 507]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 13 كتاب العيدين: 7 باب المشي والركوب إلى العيد، والصلاة قبل الخطبة بغير أذان ولا إقامة»

حدیث نمبر: 508
508 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ فِي أَوَّلِ مَا بُويِعَ لَهُ، إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُؤَذَّنُ بِالصَّلاَةِ يَوْمَ الْفِطْرِ، وَإِنَّمَا الْخُطْبَةُ بَعْدَ الصَّلاَةِ
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے سیّدنا عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو اس زمانہ میں بھیجا جب (شروع شروع ان کی خلافت کا زمانہ تھا) (آپ نے کہلایا) عیدالفطر کی نماز کے لئے اذان نہیں دی جاتی تھی اور خطبہ نماز کے بعد ہوتا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 508]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 13 كتاب العيدين: 7 باب المشي والركوب إلى العيد، والصلاة قبل الخطبة بغير أذان ولا إقامة»

حدیث نمبر: 509
509 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ: قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرَ، يُصَلُّونَ الْعِيدَيْنِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 509]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 13 كتاب العيدين: 8 باب الخطبة بعد العيد»

حدیث نمبر: 510
510 صحيح حديث أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالأَضْحَى إِلَى الْمُصَلَّى، فَأَوَّلُ شَيْءٍ يَبْدأُ بِهِ الصَّلاَةُ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ فَيَقُومُ مُقَابِلَ النَّاسِ، وَالنَّاسُ جُلُوسٌ عَلَى صُفُوفِهِمْ، فَيَعِظُهُمْ وَيُوصِيهِمْ وَيَأْمُرُهُمْ، فَإِنْ كَانَ يُريدُ أَنْ يَقْطَعَ بَعْثًا، قَطَعَهُ؛ أَوْ يَأْمُرَ بِشَيْءٍ، أَمَرَ بِهِ؛ ثُمَّ يَنْصَرِف قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَلَمْ يَزَلِ النَّاسُ عَلَى ذلِكَ حَتَّى خَرَجْتُ مَعَ مَرْوَانَ، وَهُوَ أَميرُ الْمَديِنةِ، فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ، فَلَمَّا أَتَيْنَا الْمُصَلَّى إِذَا مِنْبَرٌ بَنَاهُ كَثيرُ بْنُ الصَّلْتِ، فَإِذَا مَرْوَانُ يُريدُ أَنْ يَرْتَقِيَهُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ، فَجَبَذْتُ بِثَوْبِهِ، فَجَبَذَنِي، فَارْتَفَعَ فَخَطَبَ قَبْلَ الصَّلاَةِ؛ فَقُلْتُ لَهُ: غَيَّرْتُمْ وَاللهِ فَقَالَ: أَبَا سَعِيدٍ قَدْ ذَهَبَ مَا تَعْلَمُ؛ فَقُلْتُ: مَا أَعْلَمُ، وَاللهِ خَيْرٌ مِمَّا لاَ أَعْلَمُ، فَقَالَ: إِنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَجْلِسُونَ لَنَا بَعْدَ الصَّلاَةِ فَجَعَلْتُهَا قَبْلَ الصَّلاَةِ
سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اور عیدالضحیٰ کے دن (مدینہ کے باہر) عیدگاہ تشریف لے جاتے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے تمام لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں وعظ و نصیحت فرماتے اچھی باتوں کا حکم دیتے اگر جہاد کے لئے کہیں لشکر بھیجنے کا ارادہ ہوتا تو اس کو الگ کرتے کسی اور بات کا حکم دینا ہوتا تو وہ حکم دیتے اس کے بعد شہر کو واپس تشریف لاتے سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لوگ برابر اسی سنت پر قائم رہے لیکن سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مروان جو مدینہ کا حاکم تھا میں اس کے ساتھ عیدالفطر یا عیدالضحیٰ کی نماز کے لئے نکلا ہم جب عید گاہ پہنچے تو وہاں میں نے کثیر بن صلت کا بنا ہوا ایک منبر دیکھا جاتے ہی مروان نے چاہا کہ اس پر نماز سے پہلے (خطبہ دینے کے لئے) چڑھے اس لئے میں نے اس کا دامن پکڑ کر کھینچا لیکن وہ جھٹک کر اوپر چڑھ گیا اور نماز سے پہلے خطبہ دیا میں نے اس سے کہا کہ واللہ تم نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو) بدل دیا مروان نے کہا کہ اے ابو سعید اب وہ زمانہ گذر گیا جس کو تم جانتے ہو ابو سعید نے کہا کہ بخدا میں جس زمانہ کو جانتا ہوں اس زمانہ سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا مروان نے کہا کہ ہمارے دور میں لوگ نماز کے بعد نہیں بیٹھتے اس لئے میں نے نماز سے پہلے خطبہ کر دیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 510]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 13 كتاب العيدين: 6 باب الخروج إلى المصلى بغير منبر»

254. باب ذكر إباحة خروج النساء في العيدين إلى المصلى وشهود الخطبة مفارقات للرجال
254. باب: نماز عید کے لیے خواتین کا عید گاہ جانا اور مردوں سے علیحدہ بیٹھ کر امام کا خطبہ سننا
حدیث نمبر: 511
511 صحيح حديث أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ: أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ الْحُيَّضَ، يَوْمَ الْعِيدَيْنِ، وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَدَعْوَتَهُمْ، وَيَعْتَزِلُ الحُيَّضُ عَنْ مُصَلاَّهُن قَالَتِ امْرَأَةٌ: يَا رَسُولَ اللهِ إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ، قَالَ: لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمیں حکم ہوا کہ ہم عیدین کے دن حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو بھی باہر لے جائیں تا کہ وہ مسلمان کے اجتماع اور ان کی دعاؤں میں شریک ہو سکیں البتہ حائضہ عورتوں کو نماز پڑھنے کی جگہ سے دور رکھیں ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے پاس (پردہ کرنے کے لئے) چادر نہیں ہوتی آپ نے فرمایا کہ اس کی ساتھی عورت اپنی چادر کا ایک حصہ اسے اڑھا دے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 511]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 2 باب وجوب الصلاة في الثياب»

255. باب الرخصة في اللعب الذي لا معصية فيه في أيام العيد
255. باب: عید کے دن میں مباح کھیل کھیلنا جائز ہے
حدیث نمبر: 512
512 صحيح حديث عَائِشَةَ قَالَتْ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ، وَعِنْدَي جَارِيَتَانِ مِنْ جَوَارِي الأَنْصَارِ، تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاوَلَتِ الأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثَ قَالَتْ: وَلَيْسَتَا بِمُغَنِّيَتَيْن فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمَزَاميرُ الشَّيْطَانِ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذلِكَ فِي يَوْمِ عيدٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عيدًا وَهذَا عيدُنَا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں، سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطانی باجے؟ اور یہ عید کا دن تھا آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 512]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 13 كتاب العيدين: 3 باب سنة العيدين لأهل الإسلام»

حدیث نمبر: 513
513 صحيح حديث عَائِشَةَ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثَ، فَاضْطَجَعَ عَلَى الْفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجْهَهُ، وَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ، فَانْتَهَرَني، وَقَالَ: مِزْمَارَةُ الشَّيْطَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: دَعْهُمَا فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُهُمَا فَخَرَجَتَاوَكَانَ يَوْمَ عيدٍ يَلْعَبُ فِيهِ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالْحِرَابِ، فَإِمَّا سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِمَّا قَالَ: تَشْتَهِينَ تَنْظُرِينَ فَقُلْتُ: نَعَمْ فَأَقَامَنِي وَرَاءَهُ، خَدِّي عَلَى خَدِّهِ، وَهُوَ يَقُولُ: دُونَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ حَتَّى إِذَا مَلِلْتُ قَالَ: حَسْبُكِ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: فَاذْهَبِي
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اس وقت میرے پاس (انصار کی) دو لڑکیاں جنگ بعاث کے قصوں کی نظمیں پڑھ رہی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر لیٹ گئے اور اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا اس کے بعد سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور مجھے ڈانٹا اور فرمایا کہ یہ شیطانی باجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں؟ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ جانے دو خاموش رہو، پھر جب سیّدنا ابوبکر دوسرے کام میں لگ گئے تو میں نے انہیں اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں اور یہ عید کا دن تھا حبشہ کے کچھ لوگ ڈھالوں اور برچھیوں سے کھیل رہے تھے اب یا خود میں نے کہا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کھیل دیکھو گی؟ میں نے کہا جی ہاں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا میرا رخسار آپ کے رخسار پر تھا اور آپ فرما رہے تھے کھیلو کھیلو اے بنی ارفدہ (یہ حبشہ کے لوگوں کا لقب تھا) پھر جب میں تھک گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بس میں نے کہا جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 513]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 13 كتاب العيدين: 2 باب الحراب والدرق يوم العيد»

حدیث نمبر: 514
514 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: بَيْنَا الْحَبَشَةُ يَلْعَبُونَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِرَابِهِمْ، دَخَلَ عُمَرُ فَأَهْوَى إِلَى الْحَصَى فَحَصَبَهُمْ بِهَا، فَقَالَ: دَعْهُمْ يَا عُمَرُ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حبشہ کے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حراب (چھوٹے نیزے) کا کھیل دکھلا رہے تھے کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ گئے اور کنکریاں اٹھا کر انہیں ان سے مارا لیکن آپ نے فرمایا عمر انہیں کھیل دکھانے دو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 514]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد والسير: 79 باب اللهو بالحراب ونحوها»