یحییٰ بن یحییٰ نے کہا: میں نے امام مالک کے سامنے قراءت کی، عبداللہ بن ابوبکر سے روایت ہے، انہوں نے عمرہ سے روایت کی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف فرما تھے انہوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے ایک آدمی کی آواز سنی جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! یہ آدمی آپ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگ رہا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرا خیال ہے وہ فلاں ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا کے بارے میں (فرمایا)۔۔" عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اگر فلاں۔۔ انہوں نے اپنے ایک رضاعی چچا کے بارے میں کہا۔۔ زندہ ہوتا تو وہ میرے گھر میں آ سکتا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: "ہاں، بلاشبہ رضاعت ان تمام رشتوں کو حرام کر دیتی ہے جن کو ولادت حرام کرتی ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف فرما تھے میں نے ایک آدمی کی آواز سنی، وہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے، تو میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا خیال ہے، یہ فلاں ہے یعنی حضرت حفصہ رض اللہ تعالیٰ عنہا کا رضاعی چچا ہے۔“ تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر فلاں زندہ ہوتا، جو میرا رضاعی چچا تھا، وہ میرے پاس آ سکتا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو ولادت (نسب و خون) سے حرام ہوتے ہیں۔“
ہشام بن عروہ نے عبداللہ بن ابوبکر سے، انہوں نے عمرہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "رضاعت سے وہ (رشتے) حرام ہو جاتے ہیں جو ولادت سے حرام ہوتے ہیں
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”جو ولادت سے حرام ہو جاتا ہے وہ رضاعت سے بھی حرام ہو جاتا ہے۔“
امام مالک نے ابن شہاب سے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے ان (عروہ) کو خبر دی کہ پردے کے احکام نازل ہونے کے بعد ابوقُعیس کے بھائی افلح آئے، وہ اندر آنے کی اجازت چاہتے تھے، اور وہ ان کے رضاعی چچا (لگتے) تھے۔ انہوں نے کہا: میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو جو میں نے کیا آپ کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ انہیں اپنے سامنے آنے کی اجازت دوں
حضرت عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ ابو القعیس کا بھائی افلح آیا اور اس نے ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، وہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رضاعی چچا تھا اور پردے کے احکام نازل ہو چکے تھے، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کو اجازت دینے سے انکار کر دیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو انہیں اپنے اس کام (عمل) کی خبر دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے انہیں اجازت دینے کا حکم دیا۔
سفیان بن عیینہ نے ہمیں زہری سے حدیث بیان کی، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میرے پاس میرے رضاعی چچا افلح بن ابی قعیس آئے، (آگے) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث کے ہم معنی بیان کیا اور یہ اضافہ کیا: (عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:) میں نے عرض کی: مجھے تو عورت نے دودھ پلایا ہے، مرد نے نہیں پلایا۔ آپ نے فرمایا: "تیرے دونوں ہاتھ یا تیرا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرا رضاعی چچا، افلح بن ابی قعیس آیا۔ آ گے مذکورہ بالا روایت بیان کی، اور اس میں یہ اضافہ ہے۔ میں نے کہا، مجھے تو بس عورت نے دودھ پلایا ہے۔ مرد نے تو دودھ نہیں پلایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے دونوں ہاتھ یا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو۔“(دودھ میں خاوند کی تاثیر ہے۔)“
یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے عروہ سے روایت کی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد ابوقعیس کے بھائی افلح آئے، وہ ان کے پاس (گھر کے اندر) آنے کی اجازت چاہتے تھے۔ ابوقعیس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی والد تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں افلح کو اجازت نہیں دوں گی حتیٰ کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لوں۔ مجھے ابوقعیس نے تو دودھ نہیں پلایا (کہ اس کا بھائی میرا محرم بن جائے) مجھے تو ان کی بیوی نے دودھ پلایا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ابوقعیس کے بھائی افلح میرے پاس آئے تھے، وہ اندر آنے کی اجازت مانگ رہے تھے، مجھے اچھا نہ لگا کہ میں انہیں اجازت دوں یہاں تک کہ آپ سے اجازت لے لوں۔ (عروہ نے) کہا: حضرت (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انہیں اجازت دے دیا کرو۔" عروہ نے کہا: اسی (حکم) کی وجہ سےحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں: رضاعت کی وجہ سے وہ سب رشتے حرام ٹھہرا لو جنہیں تم نسب کی وجہ سے حرام ٹھہراتے ہو
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ان کے پاس ابو القعیس کا بھائی افلح پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد آیا اور ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، اور ابو القعیس حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رضاعی باپ تھا، حضرت عائشہ نے جواب دیا، اللہ کی قسم! میں اس وقت تک افلح کو اجازت نہیں دوں گی، جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت نہ کر لوں، کیونکہ مجھے ابو القعیس نے تو دودھ نہیں پلایا بلکہ مجھے دودھ تو اس کی بیوی نے پلایا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ابو القعیس کا بھائی افلح میرے پاس آنے کی اجازت طلب کرنے آیا تھا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر اس کو اجازت دینا اچھا نہیں سمجھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے آنے کی اجازت دے دو۔“ عروہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں اس بنا پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی تھیں، جن رشتوں کو نسب و ولادت سے حرام قرار دیتے ہو، ان رشتوں کو رضاعت سے بھی حرام قرار دو۔
معمر نے ہمیں زہری سے اسی سند کے ساتھ خبر دی کہ ابوقعیس کے بھائی افلح آئے، وہ ان کے پاس گھر کے اندر آنے کی اجازت چاہتے تھے۔۔۔ ان سب کی حدیث کی طرح۔۔۔ اور اس میں ہے: "وہ تمہارے چچا ہیں، تمہارا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو" اور ابوقعیس اس عورت کے شوہر تھے جس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دودھ پلایا تھا
یہی حدیث امام صاحب، زہری کی مذکورہ اسناد سے بیان کرتے ہیں کہ ابو القعیس کا بھائی افلح، ان کے ہاں اجازت طلب کرنے کے لیے آیا۔ اور اس میں یہ ہے: ”یہ تیرا چچا ہے، تیرا دایاں ہاتھ خاک آ لود ہو۔“ اور ابو القعیس اس عورت کا خاوند تھا جس نے حضرت عائشہ کو دودھ پلایا تھا۔
ابن نمیر نے ہشام سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد (عروہ بن زبیر) سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میرے رضاعی چچا آئے، وہ مجھ سے (گھر کے) اندر آنے کی اجازت چاہتے تھے، میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لوں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کی: میرے رضاعی چچا نے میرے پاس (گھر کے اندر) آنے کی اجازت مانگی تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے چچا تمہارے پاس (گھر میں) آ جائیں۔" میں نے کہا: مجھے عورت نے دودھ پلایا تھا، مرد نے نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " وہ تمہارے چچا ہیں، وہ تمہارے گھر میں آ سکتے ہیں
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرا رضاعی چچا میرے پاس آنے کی اجازت طلب کرنے آیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیے بغیر اس کو اجازت دینے سے انکار کر دیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، تو میں نے عرض کیا۔ میرا رضاعی چچا میرے پاس آنے کی اجازت طلب کرتا تھا، میں نے اس کو اجازت دینے سے انکار کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا چچا ہے، وہ تیرے پاس آ سکتا ہے۔“ میں نے کہا، مجھے دودھ تو عورت نے پلایا ہے، مرد نے تو دودھ نہیں پلایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تیرا چچا ہے، تیرے پاس آ سکتا ہے۔“
حماد، یعنی ابن زید نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ہشام نے اسی سند سے حدیث بیان کی کہ ابوقعیس کے بھائی نے ان (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) کے ہاں آنے کی اجازت مانگی۔۔۔ آگے اسی طرح بیان کیا
امام صاحب ایک اور استاد سے ہشام کی مذکورہ سند سے بیان کرتے ہیں کہ ابو القعیس کے بھائی نے مجھ سے اجازت طلب کی، آ گے مذکورہ روایت ہے۔
ابومعاویہ نے ہشام سے اسی سند کے ساتھ اسی کی طرح حدیث بیان کی مگر انہوں نے کہا: ابوقیس نے ان کے ہاں آنے کی اجازت مانگی
امام صاحب ایک اور استاد سے ہشام ہی کی سند سے مذکورہ روایت بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں یہ ہے کہ ان سے ابو القعیس نے اجازت طلب کی۔ اس کو ابو القعیس قرار دینا راوی کا وہم ہے کیونکہ وہ تو رضاعی باپ ہے نہ کہ چچا۔