حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مجھے دومرتبہ خواب میں دکھائی گئی ہو۔ میں نے دیکھا کہ تم ایک ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئی ہو اور کہا جارہا ہے کہ یہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں، ان کا چہرہ کھولئے، میںنے چہرہ کھول کر دیکھا تو تم تھیں، میں نے سوچا کہ اگر یہ خواب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے تو وہ خود اس کو پورا فرمائے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1579]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 63 كتاب مناقب الأنصار: 44 باب تزويج النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عائشة وقدومها المدينة»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: میں خوب پہچانتا ہوں کہ کب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو اور کب تم مجھ پر ناراض ہو جاتی ہو۔ بیان کیا کہ اس پر میں نے عرض کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات کس طرح سمجھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1580]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 108 باب غيرة النساء ووجدهن»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی تھی، میری بہت سی سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لاتے تو وہ چھپ جاتیں، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں میرے پاس بھیجتے اور وہ میرے ساتھ کھیلتیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1581]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 81 باب الانبساط إلى الناس»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ (لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں) تحائف بھیجنے کے لیے۔عائشہ رضی اللہ عنہ کی باری کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اپنے ہدایا سے یا اس خاص دن کے انتظار سے (راوی کو شک ہے) لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1582]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 51 كتاب الهبة: 7 باب قبول الهدية»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ مرض الموت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے رہتے تھے کہ کل میرا قیام کہاں ہو گا، کل میرا قیام کہاں ہو گا؟ آپ عائشہ رضی اللہ عنہاکی باری کے منتظر تھے، پھر ازواج مطہرات علیہ السلام نے اجازت دے دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں چاہیں قیام فرمائیں تو آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے گھر قیام کیا اور آپ کی وفات بھی وہیں ہوئی۔ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ آپ کی وفات اسی دن ہوئی جس دن قاعدہ کے مطابق میرے یہاں آپ کے قیام کی باری تھی۔ رحلت کے وقت سر مبارک میرے سینے اور گردن کے درمیان تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1583]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 83 باب مرض النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ووفاته»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ وفات سے کچھ پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پشت سے ان کا سہارا لیے ہوئے تھے۔ آپ نے کان لگا کر سنا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کر رہے ہیں۔ ”اے اللہ! میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم کر اور میرے رفیقوں سے مجھے ملا۔“[اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1584]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 83 باب مرض النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ووفاته»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ میں سنتی آئی تھی کہ ہر نبی کو وفات سے پہلے دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا جاتا ہے، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سنا، آپ اپنے مرض الموت میں فرما رہے تھے، آپ کی آواز بھاری ہو چکی تھی۔ آپ آیت (مع الذین انعم اللہ علیھم الخ) کی تلاوت فرما رہے تھے (یعنی ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے) مجھے یقین ہو گیا کہ آپ کو بھی اختیار دے دیا گیا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1585]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 83 باب مرض النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ووفاته»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ تندرستی کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی گئی تو پہلے جنت میں اس کی قیام گاہ اسے ضرور دکھا دی گئی، پھر اسے اختیار دیا گیا (راوی کو شک تھا کہ لفظ یحیا ہے یا یخیر، دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے) پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑے اور وقت قریب آ گیا تو سر مبارک عائشہ رضی اللہ عنہاکی ران پر تھا اور آپ پر غشی طاری ہو گئی تھی، جب کچھ ہوش ہوا تو آپ کی آنکھیں گھر کی چھت کی طرف اٹھ گئیں اور آپ نے فرمایا۔ اللھم فی الرفیق الاعلیٰ۔ میں سمجھ گئی کہ اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں (یعنی دنیاوی زندگی کو) پسند نہیں فرمائیں گے۔ مجھے وہ حدیث یاد آ گئی جو آپ نے تندرستی کے زمانے میں فرمائی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1586]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 83 باب مرض النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ووفاته»
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج کے لئے قرعہ ڈالتے۔ ایک مرتبہ قرعہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہاکے نام کا نکلا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت حسب معمول چلتے وقت عائشہ رضی اللہ عنہاکے ساتھ باتیں کرتے ہوئے چلتے۔ ایک مرتبہ حفصہ رضی اللہ عنہانے عائشہ رضی اللہ عنہاسے کہا کہ آج رات کیوں نہ تم میرے اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میں تمہارے اونٹ پر تا کہ تم بھی نئے مناظر دیکھ سکو اور میں بھی۔ انہوں نے یہ تجویز قبول کر لی اور (ہر ایک دوسرے کے اونٹ پر) سوار ہو گئیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہاکے اونٹ کے پاس تشریف لائے۔ اس وقت اس پر حفصہ رضی اللہ عنہابیٹھی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کیا، پھر چلتے رہے، جب پڑاؤ ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ عائشہ رضی اللہ عنہااس میں نہیں ہیں (اس غلطی پر عائشہ رضی اللہ عنہاکو اس درجہ رنج ہوا کہ) جب لوگ سواریوں سے اتر گئے تو ام المومنین نے اپنے پاؤں اذخر گھاس (جس میں زہریلے کیڑے بکثرت رہتے تھے)میں ڈال لئے اور دعا کرنے لگی کہ اے میرے رب!مجھ پر کوئی بچھو یا سانپ مسلط کر دے جو مجھے ڈس لے۔ عائشہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تو کچھ نہیں کہہ سکتی تھی کیونکہ یہ حرکت خود میری ہی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1587]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 97 باب القرعة بين النساء إن أراد سفرًا»
حدیث نمبر: 1588
1588 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى الطَّعَامِ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے سنا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت اور تمام کھانوں پر۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1588]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 62 كتاب فضائل أصحاب النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: 30 باب فضل عائشة رضي الله عنها»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا: ”اے عائشہ! یہ جبریل علیہ السلام آئے ہیں, تم کو سلام کہہ رہے ہیں۔“ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں کہا کہ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ برکاتہ۔ آپ وہ چیزیں دیکھتے ہیں جنہیں میں نہیں دیکھ سکتی, عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1589]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 59 كتاب بدء الخلق: 6 باب ذكر الملائكة»