اللؤلؤ والمرجان
كتاب فضائل الصحابة
کتاب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے فضائل
818. باب ذكر حديث أم زرع
818. باب: حدیث ام زرع کا بیان
حدیث نمبر: 1590
1590 صحيح حديث عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَلَسَ إِحْدى عَشْرَةَ امْرَأَةً، فَتَعَاهَدْنَ وَتَعَاقَدْنَ أَنْ لاَ يَكْتُمْنَ مِنْ أَخْبَارِ أَزْوَاجِهِنَّ شَيْئًا قَالَتِ الأُولَى: زَوْجِي لَحْم جَمَلٍ غَثٍّ، عَلَى رَأْسِ جَبَلٍ، لاَ سَهْلٍ فَيُرْتَقَى، وَلاَ سَمِينٍ فَيُنْتَقَلُ قَالَتِ الثَّانِيَةُ: زَوْجِي لاَ أَبُثُّ خَبَرَه، إِنِّي أَخَافُ أَنْ لاَ أَذَرَهُ، إِنْ أَذْكُرْهُ أَذْكُرْ عُجَرَهُ وَبُجَرَهُ قَالَتِ الثَّالِثَةُ: زَوْجِي الْعَشَنَّقُ، إِنْ أَنْطِقْ أُطَلَّقْ، وَإِنْ أَسْكُتْ أُعَلَّقْ قَالَتِ الرَّابِعَةُ: زَوْجِي كَلَيْلِ تِهَامَةَ، لاَ حَرٌّ وَلاَ قُرٌّ، وَلاَ مَخَافَةَ وَلاَ سَآمَةَ قَالَتِ الْخَامِسَةُ: زَوْجِي إِنْ دَخَلَ فَهِدَ، وَإِنْ خَرَجَ أَسِدَ، وَلاَ يَسْأَلُ عَمَّا عَهِدَ قَالَتِ السَّادِسَةُ: زَوْجِي إِنْ أَكَلَ لَفَّ، وَإِنْ شَرِبَ اشْتَفَّ، وَإِنِ اضطَجَعَ الْتَفَّ، وَلاَ يُولِجُ الْكَفَّ، لِيَعْلَمَ الْبَثَّ قَالَتِ السَّابِعَةُ: زَوْجِي غَيَايَاءُ أَوْ عَيَايَاءُ، طَبَاقَاءُ، كُلُّ دَاءٍ لَهُ دَاءٌ، شَجَّكِ أَوْ فَلَّكِ، أَوْ جَمَعَ كُلاًّ لَكِ قَالَتِ الثَّامِنَةُ: زَوْجِي الْمَسُّ مَسُّ أَرْنَبٍ، وَالرِّيحُ رِيحُ زَرْنَبٍ قَالَتِ التَّاسِعَةُ: زَوْجِي رَفِيعُ الْعِمَادِ، طَوِيلُ النِّجَادِ، عَظِيمُ الرَّمَادِ، قَرِيبُ الْبَيْتِ مِنَ النَّادِ قَالَتِ الْعَاشِرَةُ: زَوْجِي مَالِكٌ، وَمَا مَالِكٌ مَالِكٌ خَيْرٌ مِنْ ذلِكَ، لَهُ إِبِلٌ كَثِيرَاتُ الْمَبَارِكِ، قَلِيلاَتُ الْمَسَارِحِ، وَإِذَا سَمِعْنَ صَوْتَ الْمِزْهَرِ أَيْقَنَّ أَنَّهُنَّ هَوَالِكُ قَالَتِ الْحَادِيَةَ عَشْرَةَ: زَوْجِي أَبُو زَرْعٍ، فَمَا أَبُو زَرْعٍ أَنَاسَ مِنْ حُلِيٍّ أُذُنَيَّ، وَمَلأَ مِنْ شَحْمِ عَضُدَيَّ، وَبَجَّحَنِي فَبَجِحَتْ إِلَيَّ نَفْسِي وَجَدَنِي فِي أَهْلِ غُنيْمَةٍ بَشِقٍّ، فَجَعَلَنِي فِي أَهْلِ صَهِيلٍ وَأَطِيطٍ وَدَائِسٍ وَمُنَقٍّ فَعِنْدَهُ أَقُولُ فَلاَ أُقَبَّحُ، وَأَرْقُدُ فَأَتَصَبَّحُ، وَأَشْرَبُ فَأَتَقَنَّحُ أُمُّ أَبِي زَرْعٍ، فَمَا أُمُّ أَبِي زَرْعٍ عُكُومُهَا رَدَاحٌ، وَبَيْتُهَا فَسَاحٌ ابْنُ أَبِي زَرْعٍ، فَمَا ابْنُ أبي زَرْعٍ مَضْجِعُهُ كَمَسَلِّ شَطْبَةٍ، وَيُشْبِعُهُ ذِرَاعُ الْجَفْرَةِ بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ، فَمَا بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ طُوْعُ أَبِيهَا وَطَوْعُ أُمِّهَا، وَمِلْءُ كِسَائِهَا، وَغَيْظُ جَارَتِهَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ، فَمَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ لاَ تَبُثُّ حَدِيثَنَا تَبْثِيثًا، وَلاَ تُنَّقِّثُ مِيرَتَنَا تَنْقِيثًا، وَلاَ تَمْلأُ بَيْتَنَا تَعْشِيشًا قَالَتْ: خَرَجَ أَبُو زَرْعٍ وَالأَوْطَابُ تُمْخَضُ، فَلَقِيَ امْرَأَةً مَعَهَا وَلَدَانِ لَهَا كَالْفَهْدَيْنِ، يَلْعَبَانِ مِنْ تَحْتِ خَصْرِهَا بِرُمَّانَتَيْنِ، فَطَلَّقَنِي وَنَكَحَهَا فَنَكَحْتُ بَعْدَهُ رَجُلاً سَرِيًّا، رَكِبَ شَرِيًّا، وَأَخَذَ خَطِّيًّا، وَأَرَاحَ عَلَيَّ نَعَمًا ثَرِيًّا، وَأَعْطَانِي مِنْ كُلِّ رَائِحَةٍ زَوْجًا وَقَالَ: كُلِي، أُمَّ زَرْعٍ وَمِيرِي أَهْلَكِ قَالَتْ: فَلَوْ جَمَعْتُ كُلَّ شَيْءٍ أَعْطَانِيهِ، مَا بَلَغَ أَصْغَرَ آنِيَةِ أَبِي زَرْعٍ قَالَتْ عَائِشَةُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُنْتُ لَكِ كَأَبِي زَرْعٍ لأُمِّ زَرْعٍ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ گیارہ عورتوں کا ایک اجتماع ہوا جس میں انہوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ مجلس میں وہ اپنے اپنے خاوند کا صحیح صحیح حال بیان کریں کوئی بات نہ چھپاویں۔ چنانچہ پہلی عورت بولی میرے خاوند کی مثال ایسی ہے جیسے دبلے اونٹ کا گوشت جو پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہوا ہو نہ تو وہاں تک جانے کا راستہ صاف ہے کہ آسانی سے چڑھ کر اس کو کوئی لے آئے اور نہ ہی وہ گوشت ہی ایسا موٹا تازہ ہے جسے لانے کے لئے اس پہاڑ پر چڑھنے کی تکلیف گوارا کرے۔ دوسری عورت (عمرہ بنت عمرو تمیمی نامی) کہنے لگی میں اپنے خاوند کا حال بیان کروں تو کہاں تک بیان کروں (اس میں اتنے عیب ہیں) میں ڈرتی ہوں کہ سب بیان نہ کر سکوں گی اس پر بھی اگر بیان کروں تو اس کے کھلے اور چھپے سارے عیب بیان کر سکتی ہوں۔ تیسری عورت (حیی بنت کعب یمانی) کہنے لگی، میرا خاوند کیا ہے ایک تاڑ کا تاڑ (لمبا تڑنگا) ہے اگر اس کے عیب بیان کروں تو طلاق تیار ہے اگر خاموش رہوں تو ادھر لٹکی رہوں۔ چوتھی عورت (مہدو بنت ابی ہردمہ) کہنے لگی کہ میرا خاوند ملک تہامہ کی رات کی طرح معتدل ہے نہ زیادہ گرم نہ بہت ٹھنڈا نہ اس سے مجھ کو خوف ہے نہ اکتاہٹ ہے۔ پانچویں عورت (کبشہ نامی) کہنے لگی کہ میرا خاوند ایسا ہے کہ گھر میں آتا ہے تو وہ ایک چیتا ہے اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر (بہادر) کی طرح ہے۔ جو چیز گھر میں چھوڑ کر جاتا ہے اس کے بارے میں پوچھتا ہی نہیں (کہ وہ کہاں گئی؟) اتنا بے پرواہ ہے جو آج کمایا اسے کل کے لئے اٹھا کر رکھتا ہی نہیں، اتنا سخی ہے۔ چھٹی عورت (ہند نامی) کہنے لگی کہ میرا خاوند جب کھانے پر آتا ہے تو سب کچھ چٹ کر جاتا ہے اور جب پینے پر آتا ہے تو ایک بوند بھی باقی نہیں چھوڑتا اور جب لیٹتا ہے تو تنہا ہی اپنے اوپر کپڑا لپیٹ لیتا ہے اور الگ پڑ کر سو جاتا ہے۔ میرے کپڑے میں کبھی ہاتھ بھی نہیں ڈالتا کہ کبھی میرا دکھ درد کچھ تو معلوم کرے۔ ساتویں عورت (حیی بنت علقمہ) کہنے لگی میرا خاوند تو جاہل یا مست ہے۔ صحبت کے وقت اپنا سینہ میرے سینے سے لگا کر اوندھا پڑ جاتا ہے۔ دنیا میں جتنے عیب لوگوں میں ایک ایک کر کے جمع ہیں وہ سب اس کی ذات میں جمع ہیں (کم بخت سے بات کروں تو) سر پھوڑ ڈالے یا ہاتھ توڑ ڈالے یا دونوں کام کر ڈالے، آٹھویں عورت (یاسر بنت اوس) کہنے لگی، میرا خاوند چھونے میں خرگوش کی طرح نرم ہے اور خوشبو میں سونگھو تو زعفران جیسا خوشبو دار ہے۔ نویں عورت (نام نا معلوم) کہنے لگی کہ میرے خاوند کا گھر بہت اونچا اور بلند ہے، وہ قدر آور بہادر ہے، اس کے یہاں کھانا اس قدر پکتا ہے کہ راکھ کے ڈھیر کے ڈھیر جمع ہیں (غریبوں کو خوب کھلاتا ہے) لوگ جہاں صلاح و مشورہ کے لئے بیٹھتے ہیں (یعنی پنچائت گھر) وہاں سے اس کا گھر بہت نزدیک ہے۔ دسویں عورت (کبشہ بنت رافع) کہنے لگی میرے خاوند کا کیا پوچھنا۔ جائیداد والا ہے جائیداد بھی کیسی بڑی جائیداد ویسی کسی کے پاس نہیں ہو سکتی، بہت سارے اونٹ جو جا بجا اس کے گھر کے پاس جٹے رہتے ہیں اور جنگل میں چرنے کم جاتے ہیں۔ جہاں ان اونٹوں نے باجے کی آواز سنی ان کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو گیا۔ گیارہویں عورت (ام زرع بنت اکیمل بن ساعدہ) کہنے لگی، میرا خاوند ابوزرع ہے اس کا کیا کہنا اس نے میرے کانوں کو زیوروں سے بوجھل کر دیا ہے اور میرے دونوں بازو چربی سے پھلا دیئے ہیں، مجھے خوب کھلا کر موٹا کر دیا ہے کہ میں بھی اپنے تئیں خوب موٹی سمجھنے لگی ہوں۔ شادی سے پہلے میں تھوڑی سے بھیڑ بکریوں میں تنگی سے گزر بسر کرتی تھی۔ ابو زرعہ نے مجھ کو نکاح میں لا کر گھوڑوں، اونٹوں، کھیت کھلیان سب کا مالک بنا دیا ہے۔ اتنی بہت جائیداد ملنے پر بھی اس کا مزاج اتنا عمدہ ہے کہ بات کہوں تو برا نہیں مانتا مجھ کو کبھی برا نہیں کہتا۔ سوئی پڑی رہوں تو صبح تک مجھے کوئی نہیں جگاتا۔ پانی پیوں تو خوب سیراب ہو کر پی لوں، رہی ابو زرعہ کی ماں (میری ساس) تو میں اس کی کیا خوبیاں بیان کروں اس کا توشہ خانہ مال واسباب سے بھرا ہوا، اس کا گھر بہت ہی کشادہ۔ ابو زرعہ کا بیٹا وہ بھی کیسا اچھا خوبصورت (نازک بدن دبلا پتلا) ہری چھالی یا ننگی تلوار کے برابر اس کے سونے کی جگہ ایسا کم خوراک کہ بکری کے چار ماہ کے بچے کے دست کا گوشت اس کا پیٹ بھر دے۔ ابوزرعہ کی بیٹی وہ بھی سبحان اللہ، کیا کہنا اپنے باپ کی پیاری، اپنی ماں کی پیاری (تابع فرمان اطاعت گزار) کپڑا بھرپور پہننے والی (موٹی تازی) سوکن کی جلن ابوزرعہ کی لونڈی اس کی بھی کیا پوچھتے ہو کبھی کوئی بات ہماری مشہور نہیں کرتی (گھر کا بھید ہمیشہ پوشیدہ رکھتی ہے) کھانے تک نہیں چراتی، گھر میں کوڑا کچرا نہیں چھوڑتی مگر ایک دن ایسا ہوا کہ لوگ مکھن نکالنے کو دودھ بلو رہے تھے (صبح ہی صبح) ابو زرعہ باہر گیا اچانک اس نے ایک عورت دیکھی جس کے دو بچے چیتوں کی طرح اس کی کمر کے تلے دو اناروں سے کھیل رہے تھے۔ ابو زرعہ نے مجھ کو طلاق دے کر اس عورت سے نکاح کر لیا۔ اس کے بعد میں نے ایک اور شریف سردار سے نکاح کر لیا جو گھوڑے کا اچھا سوار، عمدہ نیزہ باز ہے، اس نے بھی مجھ کو بہت سارے جانور دے دیئے ہیں اور ہر قسم کے اسباب میں سے ایک ایک جوڑا دیا ہوا ہے اور مجھ سے کہا کرتا ہے کہ ام زرع! خوب کھا پی، اپنے عزیز و اقرباء کو بھی خوب کھلا پلا تیرے لئے عام اجازت ہے مگر یہ سب کچھ بھی جو میں نے تجھ کو دیا ہوا ہے اگر اکٹھا کروں تو تیرے پہلے خاوند ابو زرعہ نے جو تجھ کو دیا تھا اس میں کا ایک چھوٹا برتن بھی نہ بھرے۔ (یعنی ابو زرعہ کے مال کے سامنے یہ سارا مال بے حقیقت ہے مگر میں تجھ کو (ابو زرعہ کی طرح طلاق دینے والا نہیں ہوں) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ یہ سارا واقعہ سنانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے عائشہ! میں بھی تیرے لیے ایسا خاوند ہوں جیسے ابو زرع, ام زرع کے لیے تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1590]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 82 باب حسن المعاشرة مع الأهل»