حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو(شہادت کے بعد) ان کی چارپائی پر رکھا گیا تو تمام لوگوں نے نعش مبارک کو گھیر لیا اور ان کے لئے(اللہ سے) دعا اور مغفرت طلب کرنے لگے۔ نعش ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی، میں بھی وہیں موجودتھا۔ اسی حالت میں اچانک ایک صاحب نے میرا شانہ پکڑ لیا، میں نے دیکھا تو وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعائے رحمت کی اور (ان کی نعش کو مخاطب کرکے) کہا‘ آپ نے اپنے بعد کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑا کہ جسے دیکھ کر مجھے یہ تمنا ہوتی کہ اس کے عمل جیسا عمل کرتے ہوئے میں اللہ سے جاملوں اور خدا کی قسم مجھے تو(پہلے سے) یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا۔ میرا یہ یقین اس وجہ سے تھا کہ میں نے اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے تھے کہ”میں ابوبکر اور عمر گئے۔میں، ابوبکر اور عمر داخل ہوئے۔میں، ابوبکر اور عمر باہر آئے۔“[اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1545]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 62 كتاب فضائل أصحاب النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: 6 باب مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص»
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک دفعہ سو رہا تھا، میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں اور وہ کرتے پہنے ہوئے ہیں، کسی کا کرتہ سینے تک ہے اور کسی کا اس سے نیچے ہے۔ (پھر) میرے سامنے عمر بن الخطاب لائے گئے۔ ان (کے بدن) پر (جو) کرتہ تھا، اسے وہ گھسیٹ رہے تھے۔ (یعنی ان کا کرتہ زمین تک نیچا تھا) صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! اس کی کیا تعبیر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اس سے) دین مراد ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1546]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 2 كتاب الإيمان: 15 باب تفاضل أهل الإيمان في الأعمال»
وضاحت: یعنی دین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ذات اقدس میں اس طرح جمع ہو گیا کہ کسی اور کو یہ شرف حاصل نہیں ہوا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کرتہ چونکہ سب سے بڑا تھا، اس لیے ان کا دینی فہم بھی اوروں سے بڑھ کر تھا۔ دین کی اس کمی بیشی میں ان لوگوں کی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ ایمان کم و بیش نہیں ہوتا۔ (راز)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سو رہا تھا۔ (اسی حالت میں) مجھے دودھ کا ایک پیالہ دیا گیا۔ میں نے خوب (اچھی طرح) پی لیا۔ حتی کہ میں نے دیکھا کہ تازگی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا (دودھ) عمر بن الخطاب کو دے دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علم۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1547]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 3 كتاب العلم: 22 باب فضل العلم»
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: میں سو رہا تھا کہ خواب میں، میں نے اپنے آپ کو ایک کنویں پر دیکھا جس پر ڈول تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جتنا چاہا میں نے اس ڈول سے پانی کھینچا، پھر اسے ابن ابی قحافہ(حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے لے لیا اور انہوں نے ایک یا دو ڈول کھینچے۔ ان کے کھینچنے میں کچھ کمزوری سی معلوم ہوئی۔ اللہ ان کی اس کمزوری کو معاف فرمائے۔ پھر اس ڈول نے ایک بہت بڑے ڈول کی صورت اختیار کرلی اور اسے عمر بن خطاب نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ میں نے ایسا شہ زور پہلوان آدمی نہیں دیکھا جو عمر کی طرح ڈول کھینچ سکتا۔ انہوں نے اتنا پانی نکالا کہ لوگوں نے اپنے اونٹوں کو حوض سے سیراب کرلیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1548]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 62 كتاب فضائل أصحاب النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: 5 باب قول النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (لو كنت متخذًا خليلاً»
وضاحت: یہ خلافت اسلامی کو سنبھالنے پر اشارہ ہے۔ جیسا کہ وفات نبوی کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ دو اڑھائی سال خلافت کے منصب پر فائز رہے اور مختلف فتنوں کی کامیابی سے سرکوبی کی۔ بعد میں فاروقی دور شروع ہوا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خلافت کا حق ادا کر دیا کہ فتوحات اسلامی کا سیلاب دور دور تک پہنچ گیا اور خلافت کے ہر شعبہ میں ترقی کے دروازے کھل گئے۔ (راز)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک کنویں سے ایک اچھا بڑا ڈول کھینچ رہا ہوں، جس سے جوان اونٹنی کو دودھ پلاتے ہیں۔پھر ابوبکر آئے اور انہوں نے بھی ایک یا دو ڈول کھینچے مگر کمزوری کے ساتھ اور اللہ ان کی مغفرت کرے۔ پھر عمر آئے اور ان کے ہاتھ میں وہ ڈول ایک بہت بڑے ڈول کی صورت اختیار کرگیا۔ میں نے ان جیسا مضبوط اور باعظمت شخص نہیں دیکھا جو اتنی مضبوطی کے ساتھ کام کرسکتا ہو۔ انہوں نے اتنا کھینچا کہ لوگ سیراب ہو گئے اور اپنے اونٹوں کو پلا کر ان کے ٹھکانوں پر لے گئے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1549]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 62 كتاب فضائل أصحاب النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: 6 باب مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص»
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جنت میں داخل ہوا یا (آپ نے یہ فرمایا کہ) میں جنت میں گیا، وہاں میں نے ایک محل دیکھا۔ میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں نے بتایا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا۔ میں نے چاہا کہ اس کے اندر جاؤں لیکن رک گیا کیونکہ تمہاری غیرت مجھے معلوم تھی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، اے اللہ کے نبی! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1550]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 107 باب الغيرة»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں جنت دیکھی، میں نے اس میں ایک عورت کو دیکھا جو ایک محل کے کنارے وضو کر رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا محل ہے۔ مجھے ان کی غیرت یاد آئی اور میں وہاں سے فوراً لوٹ آیا۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ رو دیئے اور کہنے لگے، یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے ساتھ بھی غیرت کروں گا؟ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1551]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 59 كتاب بدء الخلق: 8 باب ما جاء في صفة الجنة وأنها مخلوقة»
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔ اس وقت چند قریشی عورتیں ازواج مطہرات آپ کے پاس بیٹھی آپ سے گفتگو کر رہی تھیں اور آپ سے (خرچ) بڑھانے کا سوال کر رہی تھیں۔ خوب آواز بلند کر کے لیکن جونہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی، وہ خواتین جلدی سے پردے کے پیچھے چلی گئیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو ہنستا ہی رکھے، یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا کہ مجھے ان عورتوں پر تعجب ہوا ابھی ابھی میرے پاس تھیں، لیکن جب تمہاری آواز سنی تو پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ گئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: لیکن اے اللہ کے رسول! آپ زیادہ اس کے مستحق تھے کہ آپ سے یہ ڈرتیں، پھر انہوں نے (ازواج مطہرات سے)کہا: اے اپنی جانوں کی دشمنو! مجھ سے تو تم ڈرتی ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں۔ ازواج مطہرات بولیں کہ واقعہ یہی بات ہے کیونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برخلاف مزاج میں بہت سخت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، (اے عمر!) اگر شیطان بھی کہیں راستے میں تم سے مل جائے، تو جھٹ وہ یہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1552]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 59 كتاب بدء الخلق: 11 باب صفة إبليس وجنوده»
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ (جو پختہ مسلمان تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قمیص ان کے والد کے کفن کے لیے عنایت فرما دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قمیص عنایت فرمائی۔ پھر انہوں نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ بھی پڑھا دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ پڑھانے کے لیے بھی آگے بڑھ گئے۔ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھانے جا رہے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے منع بھی فرما دیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے فرمایا ہے کہ ”آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے لیے استغفار کریں، خواہ نہ کریں۔ اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں گے (تب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا) اس لیے میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ معاف کر دے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے لیکن یہ شخص تو منافق ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ ”اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر کبھی بھی نماز نہ پڑھئے اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔“[اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1553]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 9 سورة براءة: 12 باب استغفر لهم أو لا تستغفر لهم»