حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب ہم غار ثور میں چھپے تھے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر مشرکین کے کسی آدمی نے اپنے قدموں پر نظر ڈالی تو وہ ضرور ہم کو دیکھ لے گا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! ان دو کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1540]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 62 كتاب فضائل أصحاب النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: 2 باب مناقب المهاجرين وفضلهم»
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے، پھر فرمایا اپنے ایک نیک بندے کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ دنیا کی نعمتوں میں سے جو وہ چاہے اسے اپنے لئے پسند کرلے یا جو اللہ تعالیٰ کے یہاں ہے (آخرت میں) اسے پسند کرلے۔ اس بندے نے اللہ تعالیٰ کے ہاں ملنے والی چیز کو پسند کرلیا۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض کیا ہمارے ماں باپ آپصلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں(حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) ہمیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس رونے پر حیرت ہوئی، بعض لوگوں نے کہا ان بزرگوں کو دیکھئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بندے کے متعلق خبر دے رہے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نعمتوں اور جواللہ کے پاس ہے اس میں سے کسی کے پسند کرنے کا اختیار دیا تھا اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ماں باپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو ان دو چیزوں میں سے ایک کا اختیار دیا گیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ اس بات سے واقف تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ اپنی صحبت اورمال کے ذریعہ مجھ پر صرف ایک ابوبکر ہیں۔ اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا جاتی بناسکتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کوبناتا، البتہ اسلامی رشتہ ان کے ساتھ کافی ہے۔ مسجد میں کوئی دروازہ اب کھلا ہوا باقی نہ رکھا جائے سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف کھلنے والے دروازے کے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1541]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 63 كتاب مناقب الأنصار: 45 باب هجرة النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأصحابه إلى المدينة»
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوۂ ذات السلاسل کے لیے بھیجا (عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ) پھر میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ سب سے زیادہ محبت آپ کو کس سے ہے؟ آپ نے فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے۔ میں نے پوچھا، اور مردوںمیں؟ فرمایا کہ اس کے باپ سے۔ میں نے پوچھا، اس کے بعد؟ فرمایا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے۔ اس طرح آپ نے کئی آدمیوں کے نام لئے۔ ()[اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1542]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 62 كتاب فضائل أصحاب النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: 5 باب قول النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (لو كنت متخذًا خليلاً»
حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بیان کیا کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی تو آپ نے ان سے فرمایا کہ پھرآنا۔ اس نے کہا: اگر میں آؤں اورآپ کو نہ پاؤں تو؟ گویا وہ وفات کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔آپ نے فرمایا: اگر تم مجھے نہ پاسکو تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس چلی آنا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1543]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 62 كتاب فضائل أصحاب النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: 5 باب قول النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (لو كنت متخذًا خليلاً»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ایک شخص (بنی اسرائیل کا) اپنی گائے ہانکے لئے جا رہا تھا کہ وہ اس پر سوار ہو گیا اور پھر اسے مارا۔ اس گائے نے (بقدرت الٰہی) کہا کہ ہم جانور سواری کے لیے نہیں پیدا کئے گئے۔ ہماری پیدائش تو کھیتی کے لیے ہوئی ہے۔ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ! گائے بات کرتی ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں اور ابو بکر اور عمر بھی۔ حالانکہ یہ دونوں وہاں موجود بھی نہیں تھے۔ اسی طرح ایک شخص اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور ریوڑ میں سے ایک بکری اٹھا کر لے جانے لگا۔ چرواہا دوڑا اور اس نے بکری کو بھڑیئے سے چھڑا لیا۔ اس پر بھیڑیا (بقدرت الٰہی) بولا: آج تو تم نے مجھ سے اسے چھڑا لیا لیکن درندوں والے دن میں (قرب قیامت) اسے کون بچائے گا جس دن میرے سوا اور کوئی اس کا چرواہا نہ ہوگا؟ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ! بھیڑیا باتیں کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو اس بات پر ایمان لایا اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ بھی۔ حالانکہ وہ دونوں اس وقت وہاں موجود نہ تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1544]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 54 باب حدثنا أبو اليمان»
وضاحت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرات شیخین کی قوت ایمان پر یقین تھا، اسی لیے آپ نے ان کو اس پر ایمان لانے میں شریک فرمایا۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس نے گائے اور بھیڑئیے کو کلام کرنے کی طاقت دے دی۔ اس میں دلیل ہے کہ جانوروں کا استعمال ان ہی کاموں کے لیے ہونا چاہیے جن میں بطور عادت وہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ (فتح الباری)