حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ (جو پختہ مسلمان تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قمیص ان کے والد کے کفن کے لیے عنایت فرما دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قمیص عنایت فرمائی۔ پھر انہوں نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ بھی پڑھا دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ پڑھانے کے لیے بھی آگے بڑھ گئے۔ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھانے جا رہے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے منع بھی فرما دیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے فرمایا ہے کہ ”آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے لیے استغفار کریں، خواہ نہ کریں۔ اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں گے (تب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا) اس لیے میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ معاف کر دے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے لیکن یہ شخص تو منافق ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ ”اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر کبھی بھی نماز نہ پڑھئے اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔“[اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1553]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 9 سورة براءة: 12 باب استغفر لهم أو لا تستغفر لهم»