حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک دفعہ سو رہا تھا، میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں اور وہ کرتے پہنے ہوئے ہیں، کسی کا کرتہ سینے تک ہے اور کسی کا اس سے نیچے ہے۔ (پھر) میرے سامنے عمر بن الخطاب لائے گئے۔ ان (کے بدن) پر (جو) کرتہ تھا، اسے وہ گھسیٹ رہے تھے۔ (یعنی ان کا کرتہ زمین تک نیچا تھا) صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! اس کی کیا تعبیر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اس سے) دین مراد ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1546]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 2 كتاب الإيمان: 15 باب تفاضل أهل الإيمان في الأعمال»
وضاحت: یعنی دین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ذات اقدس میں اس طرح جمع ہو گیا کہ کسی اور کو یہ شرف حاصل نہیں ہوا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کرتہ چونکہ سب سے بڑا تھا، اس لیے ان کا دینی فہم بھی اوروں سے بڑھ کر تھا۔ دین کی اس کمی بیشی میں ان لوگوں کی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ ایمان کم و بیش نہیں ہوتا۔ (راز)