حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔ اس وقت چند قریشی عورتیں ازواج مطہرات آپ کے پاس بیٹھی آپ سے گفتگو کر رہی تھیں اور آپ سے (خرچ) بڑھانے کا سوال کر رہی تھیں۔ خوب آواز بلند کر کے لیکن جونہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی، وہ خواتین جلدی سے پردے کے پیچھے چلی گئیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو ہنستا ہی رکھے، یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا کہ مجھے ان عورتوں پر تعجب ہوا ابھی ابھی میرے پاس تھیں، لیکن جب تمہاری آواز سنی تو پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ گئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: لیکن اے اللہ کے رسول! آپ زیادہ اس کے مستحق تھے کہ آپ سے یہ ڈرتیں، پھر انہوں نے (ازواج مطہرات سے)کہا: اے اپنی جانوں کی دشمنو! مجھ سے تو تم ڈرتی ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں۔ ازواج مطہرات بولیں کہ واقعہ یہی بات ہے کیونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برخلاف مزاج میں بہت سخت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، (اے عمر!) اگر شیطان بھی کہیں راستے میں تم سے مل جائے، تو جھٹ وہ یہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1552]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 59 كتاب بدء الخلق: 11 باب صفة إبليس وجنوده»