اللؤلؤ والمرجان
كتاب صلاة المسافرين وقصرها
کتاب: مسافروں کی نماز اور اس کے قصر کا بیان
218. باب الدعاء في صلاة الليل وقيامه
218. باب: رات کی نماز میں دعا اور قیام
حدیث نمبر: 437
437 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بِتُّ عِنْدَ مَيْمُونَةَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَى حَاجَتَهُ، غَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ فَأَتَى الْقِرْبَةَ، فَأَطْلَقَ شِنَاقَهَا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءًا بَيْنَ وُضُوءَيْنِ لَمْ يُكْثِرْ، وَقَدْ أَبْلَغَ، فَصَلَّى، فَقُمْتُ فَتَمَطَّيْتُ كَرَاهِيَةَ أَنْ يَرَى أَنِّي كُنْتُ أَرْقبُهُ، فَتَوَضَّأْتُ، فَقَامَ يُصَلِّي، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ، فَأَخَذَ بِأُذُنِي فَأَدَارَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَتَتَامَّتْ صَلاَتُهُ ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ اضْطَجَعَ فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ، وَكَانَ إِذَا نَامَ نَفَخَ، فَآذَنَهُ بِلاَلٌ بِالصَّلاَةِ فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأ؛ وَكَانَ يَقُولُ فِي دُعَائِهِ: اللهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ يَسَارِي نُورًا، وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَاجْعَلْ لِي نُورًا قَالَ كُرَيْبٌ (الرَّاوِي عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ) وَسَبْعٌ فِي التَّابُوتِ، فَلَقَيْتُ رَجُلاً مِنْ وَلَدِ الْعَبَّاسِ فَحَدَّثَنِي بِهِنَّ فَذَكَرَ عَصَبِي وَلَحْمِي وَدَمِي وَشَعَرِي وَبَشَرِي، وَذَكَرَ خَصْلَتَيْنِ
سیّدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ میں سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں ایک رات سویا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور آپ نے اپنی حوائج ضروریہ پوری کرنے کے بعد اپنا چہرہ دھویا پھر دونوں ہاتھ دھوئے اور پھر سو گئے اس کے بعد آپ کھڑے ہو گئے اور مشکیزہ کے پاس گئے اور آپ نے اس کا منہ کھولا پھر درمیانہ وضو کیا (نہ مبالغہ کے ساتھ نہ معمولی اور ہلکے قسم کا تین تین مرتبہ سے) کم دھویا البتہ پانی ہر جگہ پہنچا دیا پھر آپ نے نماز پڑھی میں بھی کھڑا ہوا اور آپ کے پیچھے ہی رہا کیونکہ میں اسے پسند نہیں کرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سمجھیں کہ میں آپ کا انتظار کر رہا تھا میں نے بھی وضو کر لیا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے تو میں بھی آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا آپ نے میرا کان پکڑ کر دائیں طرف کر دیا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی اقتداء میں) تیرہ رکعت نماز مکمل کی اس کے بعد آپ سو گئے اور آپ کی سانس میں آواز پیدا ہونے لگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تھے تو آپ کی سانس میں آواز پیدا ہونے لگتی تھی اس کے بعد سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کو نماز کی اطلاع دی چنانچہ آپ نے (نیا وضو) کئے بغیر نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں یہ کہتے تھے اے اللہ میرے دل میں نور پیدا کر میری نظر میں نور پیدا کر میرے کان میں نور پیدا کر میرے دائیں طرف نور پیدا کر میرے بائیں طرف نور پیدا کر میرے اوپر نور پیدا کر میرے نیچے نور پیدا کر میرے آگے نور پیدا کر میرے پیچھے نور پیدا کر اور مجھے نور عطا فرما۔ کریب (راوی حدیث) نے بیان کیا کہ تابوت میں سات (نور) تھے پھر میں نے سیّدنا عباس کے ایک صاحب زادے سے ملاقات کی تو انہوں نے مجھ سے ان کے متعلق بیان کیا کہ میرے پٹھے میرا گوشت میرا خون میرے بال اور میرا چمڑا (ان سب میں نور بھر دے) اور دو چیزوں کا اور ذکر کیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 437]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 80 كتاب الدعوات: 10 باب الدعاء إذا انتبه من الليل»

وضاحت: راجح قول کے مطابق یہ سات چیزیں کریب کے پاس لکھی موجود تھیں جو اسے اس وقت یاد نہیں تھیں۔ یعنی ہڈیاں اور مغز اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ شائد چربی اور ہڈیاںمراد ہیں۔ (مرتبؒ)

حدیث نمبر: 438
438 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسِ، أَنَّهُ بَاتَ لَيْلَةً عِنْدَ مَيْمُونَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ خَالَتَهُ، فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ، وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا، فَنَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِيلٍ أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِيلٍ، اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الآيَاتِ الْخَواتِمَ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ مِنْهَا فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي وَأَخَذَ بِأُذُنِي الْيُمْنَى يَفْتِلُهَا؛ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ؛ ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى أَتَاهُ الْمُؤذِّنُ فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ
سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ اور اپنی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں گذاری۔ میں تکیہ کے عرض (یعنی گوشہ) کی طرف لیٹ گیا‘ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اہلیہ نے (معمول کے مطابق) تکیہ کی لمبائی پر سر رکھ کر آرام فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے رہے۔ اور جب آدھی رات ہو گئی یا اس سے کچھ پہلے یا اس کے کچھ بعد آپ بیدار ہوئے۔ اور اپنی نیند کو دور کرنے کے لئے اپنے ہاتھوں سے آنکھیں ملنے لگے۔ پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیتیں پڑھیں‘پھر ایک مشک کے پاس جو (چھت میں) لٹکا ہوا تھا آپ کھڑے ہو گئے‘ اور اس سے وضو کیا، خوب اچھی طرح‘ پھر کھڑے ہو کر اس طرح کیا‘ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تھا۔ پھر جا کر میں بھی آپ کے پہلوئے مبارک میں کھڑا ہو گیا۔ آپ نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا۔ اور میرا دایاں کان پکڑ کر اسے مروڑنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعت پڑھیں۔ اس کے بعد پھر دو رکعت پڑھیں‘ پھر دو رکعت ‘ پھر دو رکعت پڑھ کر اس کے بعد آپ نے ایک رکعت وتر پڑھے اور لیٹ گئے۔ پھر جب موذن آپ کے پاس آیا‘ تو آپ نے اٹھ کر دو رکعت معمولی(طور پر) پڑھیں۔ پھر باہر تشریف لا کر صبح کی نماز پڑھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 438]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 4 كتاب الوضوء: 36 باب قراءة القرآن بعد الحدث وغيره»

حدیث نمبر: 439
439 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَتْ صَلاَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، يَعْنِي بِاللَّيْلِ
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز تیرہ رکعت ہوتی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 439]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 19 كتاب التهجد: 10 باب كيف كانت صلاة النبي صلی اللہ علیہ وسلم وكم كان النبي صلی اللہ علیہ وسلم يصلى من الليل»

حدیث نمبر: 440
440 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَهَجَّدَ مِنَ اللَّيْلِ قَالَ: اللهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَواتِ وَالأَرْضِ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَواتِ وَالأَرْضِ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ رَبُّ السَّمَواتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ الْحَقُّ، وَقَوْلُكَ الْحَقُّ، وَلِقَاؤكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ؛ اللهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْلي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ أَنْتَ إِلهِي لاَ إِلهَ إِلاَّ أَنْتَ
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد پڑھنے اٹھتے تو کہتے اے اللہ حمد تیرے ہی لئے ہے کہ تو آسمان و زمین کا نور ہے حمد تیرے ہی لئے ہے کہ تو آسمان و زمین کا تھامنے والا ہے حمد تیرے ہی لئے ہے کہ تو آسمان و زمین کا اور جو کچھ اس میں ہے سب کا رب ہے تو سچ ہے تیرا وعدہ سچا ہے اور تیرا قول سچا ہے تیری ملاقات سچی ہے جنت سچ ہے اور دوزخ سچ ہے سارے انبیاء سچے ہیں اور قیامت سچ ہے اے اللہ میں تیرے سامنے ہی جھکا تجھ پر ہی ایمان لایا تجھ پر بھروسہ کیا تیری ہی طرف رجوع کیا تیرے ہی سامنے اپنا جھگڑا پیش کرتا اور تجھ سے اپنا فیصلہ چاہتا ہوں پس تو میری مغفرت کر دے اگلے پچھلے تمام گناہوں کی جو میں نے چھپا کر کئے اور جو ظاہر کئے تو ہی میرا معبود ہے تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 440]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 97 كتاب التوحيد: 35 باب قول الله تعالى (يريدون أن يبدلوا كلام الله»