سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سید الاستغفار یہ ہے کہ انسان یوں کہے کہ اے اللہ! آپ میرے رب ہیں، آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، آپ نے مجھے پیدا کیا، میں آپ کا بندہ ہوں، اور اپنے عہد اور وعدے پر حسب امکان قائم ہوں، میں آپ کے احسانات کا اقرار کرتا ہوں، اور اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں، مجھے بخش دیجئے کیونکہ آپ کے علاوہ کوئی گناہوں کو معاف نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی شخص صبح کے وقت دل کے یقین کے ساتھ یہ کلمات کہہ لے اور اسی دن فوت ہو جائے تو وہ اہل جنت میں سے ہو گا اور اگر کوئی شخص شام کے وقت یہ الفاظ دلی یقین سے کہے تو اور اسی شام فوت ہو جائے تو اہل جنت میں سے ہو گا۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17111]
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک آدمی ماہ رمضان کی اٹھارویں رات کو سینگی لگوا رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس مقام بقیع میں گزرے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، اسے اس حال میں دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سینگی لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17112]
سیدنا شداد بن اوس رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے دو چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد کی ہیں کہ اللّٰہ نے ہر چیز پر مہربانی کرنے کا حکم لکھ دیا ہے، اس لیے جب تم (میدان جنگ میں) کسی کو قتل کرو تو بھلے طریقے سے کرو، اور جب کسی جانور کو ذبخ کرو تو اچھی طرح ذبخ کرو اور تمہیں اپنی چھری تیز اور اپنے جانور کو آرام پہنچانا چاہئے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17113]
حسان بن عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ ایک سفر میں تھے، ایک جگہ پڑاؤ کیا تو اپنے غلام سے کہنے لگے کہ چھری لے کر آؤ، ہم اس سے کھیلیں گے، میں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو وہ کہنے لگے کہ میں نے جب سے اسلام قبول کیا ہے اس وقت سے میں اپنی زبان کو لگام دے کر بات کرتا ہوں، لیکن یہ جملہ آج میرے منہ سے نکل گیا ہے، اسے یاد نہ رکھنا، اور جو میں اب بات کرنے لگا ہوں، اسے یاد رکھو، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس وقت لوگ سونے چاندی کے خزانے جمع کر رہے ہوں، تم ان کلمات کا خزانہ جمع کرنا، اے اللّٰہ! میں آپ سے دین میں ثابت قدمی، ہدایت پر استقامت، آپ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق، آپ کی بہترین عبادت کرنے کا سلیقہ، قلب سلیم اور سچی زبان کا سوال کرتا ہوں، نیز آپ جن چیزوں کو جانتے ہیں ان کی خیر مانگتا ہوں اور ان کے شر سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، اور ان تمام گناہوں سے معافی مانگتا ہوں جو آپ کے علم میں ہیں کیونکہ آپ ہی علام الغیوب ہیں۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17114]
حكم دارالسلام: حسن بطرقه، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، حسان بن عطية لم يدرك شداد بن أوس
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کو سمیٹ دیا حتی کہ میں نے اس کے مشرق و مغرب سب کو دیکھ لیا، اور میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک کی زمین میرے لئے سمیٹی گئی تھی، مجھے سفید اور سرخ دو خزانے دئیے گئے ہیں، میں نے اپنے پروردگار سے درخواست کی ہے کہ وہ میری امت کو عام قحط سے ہلاک نہ کرے، کسی ایسے دشمن کو ان پر مسلط نہ کرے جو انہیں مکمل تباہ و برباد کر دے اور انہیں مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے ایک دوسرے سے مزہ نہ چکھائے، تو پروردگار عالم نے فرمایا: اے محمد! میں ایک فیصلہ کر چکا ہوں جسے ٹالا نہیں جا سکتا، میں آپ کی امت کے حق میں یہ درخواست قبول کرتا ہوں کہ انہیں عام قحط سے ہلاک نہ کروں گا اور ان پر کسی ایسے دشمن کو مسلط نہیں کروں گا جو ان سب کو مکمل تباہ و برباد کر دے بلکہ وہ خود ہی ایک دوسرے کو ہلاک اور قتل کریں گے اور ایک دوسرے کو قید کریں گے۔“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اپنی امت پر گمراہ کرنے والے ائمہ سے خوف آتا ہے، جب میری امت میں ایک مرتبہ تلوار رکھ دی جائے گی (جنگ چھڑ جائے گی) تو قیامت تک اٹھائی نہیں جائے گی۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17115]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد خالف فيه معمر حماد بن زيد، فجعله من حديث شداد بن أوس، والصواب: هو من حديث ثوبان كما رواه حماد
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے دو چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر مہربانی کرنے کا حکم لکھ دیا ہے اس لئے جب تم (میدان جنگ) میں کسی کو قتل کرو تو بھلے طریقے سے کرو اور جب کسی جانور کو ذبح کرو تو اچھی طرح سے ذبح کرو اور تمہیں اپنی چھری تیز اور اپنے جانور کو آرام پہنچانا چاہیے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17116]
سیدنا شداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سینگی لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17117]
ابواشعث کہتے ہیں کہ وہ دوپہر کے وقت مسجد دمشق کی جانب روانہ ہوئے , راستے میں سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو گئی، ان کے ساتھ صنابحی بھی تھے , میں نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے , کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہاں ایک بھائی بیمار ہے، اس کی عیادت کے لیے جا رہے ہیں, چنانچہ میں بھی ان کے ساتھ چل پڑا۔ جب وہ دونوں اس کے پاس پہنچے تو اس سے پوچھا کہ کیا حال ہے؟ اس نے بتایا کہ ٹھیک ہوں, سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہیں بشارت ہو کہ تمہارے گناہوں کا کفارہ ہو چکا اور گناہ معاف ہو چکے کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب میں اپنے بندوں میں سے کسی مؤمن بندے کو آزماتا ہوں اور وہ اس کی آزمائش پر بھی میری تعریف کرتا ہے تو جب وہ اپنے بستر سے اٹھتا ہے، وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک صاف ہو جاتا ہے جس دن اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا اور پروردگار فرماتا ہے کہ میں نے اپنے بندے کو قید کیا اور اسے آزمایا لہذا تم اس کے لئے ان تمام کاموں کا اجر و ثواب لکھو جو وہ تندرستی کی حالت میں کرتا تھا۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17118]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف راشد بن داود
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک آدمی ماہ رمضان کی اٹھارویں رات کو سینگی لگا رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے مقام بقیع میں گزرے اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اسے اس حال میں دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سینگی لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17119]
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ ایک دن وہ رونے لگے، کسی نے رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات سنی تھی، وہ یاد آ گئی اور اسی نے مجھے رلایا ہے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے اپنی امت پر شرک اور شہوت خفیہ کا اندیشہ ہے، میں نے عرض کیا، یا رسول! کیا آپ کے بعد آپ کی امت شرک کرے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! لیکن وہ چاند، سورج اور پتھروں اور بتوں کی عبادت نہیں کریں گے بلکہ اپنے اعمال ریاکاری کے لئے کریں گے، اور شہوت خفیہ سے مراد یہ ہے کہ انسان روزہ رکھ لے پھر اس کے سامنے اپنی کوئی خواہش آ جائے اور وہ اس کی وجہ سے روزہ توڑ دے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17120]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، عبدالواحد بن زيد متروك
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کی تصدیق مجلس میں موجود سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بھی فرمائی کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم میں سے کوئی اجنبی (اہل کتاب میں سے کوئی شخص) ہے؟ ہم نے عرض کیا: نہیں، یا رسول اللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے بند کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: ”ہاتھ اٹھا کر «لا اله الا الله» کہو“، چنانچہ ہم نے اپنے ہاتھ بلند کر لیے، تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ نیچے کر کے فرمایا: ”الحمد للہ! اے اللہ! تو نے مجھے یہ کلمہ دے کر بھیجا تھا، مجھے اسی کا حکم دیا تھا، اس پر مجھ سے جنت کا وعدہ کیا تھا اور تو وعدے کے خلاف نہیں کرتا“، پھر فرمایا: ”خوش ہو جاؤ کہ اللہ نے تمہاری مغفرت فرما دی۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17121]
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عقلمند وہ ہوتا ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور ما بعد الموت زندگی کے لئے تیاری کرے اور وہ شخص بےوقوف ہوتا ہے جو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا رہے اور اللہ پر امید باندھتا پھرے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17122]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف راشد بن داود
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک آدمی ماہ رمضان کے آٹھویں رات کو سینگی لگا رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس مقام بقیع میں گزرے اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، اسے اس حال میں دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سینگی لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17123]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى بكر بن أبى مريم
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک آدمی ماہ رمضان کی اٹھارہویں رات کو سینگی لگا رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے مقام بقیع میں گزرے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، اسے اس حال میں دیکھ کر نبی علیہ السلام نے فرمایا: ”سینگی لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17124]
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک آدمی ماہ رمضان کی اٹھارہویں رات کو سینگی لگا رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے مقام بقیع میں گزرے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، اسے اس حال میں دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سینگی لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17125]
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، قتادة لم يسمع من أبى قلابة
سیدنا معقل بن سنان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص ماہ رمضان میں سینگی لگا رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گزرے، اسے اس حال میں دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سینگی لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17126]
سیدنا شداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سینگی لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17127]
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، محمد بن جعفر سمع من أبى عروبة بعد اختلاطه ، وقد توبعا
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر مہربانی کرنے کا حکم لکھ دیا ہے اس لئے جب میدان جنگ میں تم کسی کو قتل کرو تو بھلے طریقے سے کرو اور جب کسی جانور کو ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو تمہیں اپنی چھری تیز اور اپنے جانور کو آرام پہنچانا چاہیے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17128]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1955، محمد بن جعفر سمع من سعيد بن أبى عروبة بعد اختلاطه، وقد توبعا
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ میں رمضان المبارک کی اٹھارویں رات کو سینگی لگوا رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے مقام بقیع میں گزرے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سینگی لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17129]
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی قے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سید الاستغفار یہ ہے کہ انسان یوں کہے کہ اے اللہ! آپ میرے رب ہیں، آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، آپ نے مجھے پیدا کیا ہے، میں آپ کا بندہ ہوں اور اپنے وعدے اور عہد پر حسب امکان قائم ہوں، میں آپ کے احسانات کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں، مجھے بخش دیجئے کیونکہ آپ کے علاوہ کوئی گناہوں کو معاف نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی صبح کے وقت دل کے یقین کے ساتھ یہ کلمات کہہ لے اور اسی دن فوت ہو جائے تو وہ اہل جنت میں سے ہو گا۔ اور اگر کوئی شخص شام کے وقت یہ الفاظ کہہ اور اسی شام فوت ہو جائے تو وہ اہل جنت میں سے ہو گا۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17130]
سیدنا شداد بن اوس رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اپنے بستر پر آئے اور قرآن کریم کی کوئی بھی سورت پڑھ لے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیج دے گا جو اس کے بیدار ہونے تک خواہ وہ جس وقت بھی بیدار ہو ہر تکلیف دہ چیز سے اُس کی حفاظت کرتا رہے گا۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17132]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الراوي عن شداد بن أوس، وأبو مسعود مختلط، ورواية يزيد بن هارون عنه بعد أختلاطه
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ کلمات سکھاتے تھے جنہیں ہم نماز میں یا نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے کہ اے اللّٰہ! میں آپ سے دین میں ثابت قدمی، ہدایت پر استقامت، آپ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق، آپ کی بہترین عبادت کا سلیقہ، قلب سلیم اور سچی زبان کا سوال کرتا ہوں، نیز آپ جن چیزوں کو جانتے ہیں ان کی خیر مانگتا ہوں اور ان کے شر سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، اور ان تمام گناہوں سے معافی مانگتا ہوں جو آپ کے علم میں ہیں۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17133]
حكم دارالسلام: حسن بطرقه ، وهذا إسناد ضعيف، راجع ما قبله
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص نماز عشاء کے بعد شعر و شاعری کی مجلس جائے اس کی اس رات کی نماز قبول نہیں ہو گی۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17134]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، قزعة بن سويد ضعيف، وعاصم بن مخلد مجهول
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس امت کے بدترین لوگ پہلے اہل کتاب کے طور طریقے مکمل طور پر ضرور اختیار کریں گے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17135]
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم اپنے مردوں کے پاس جاؤ تو ان کی آنکھیں بند کر دیا کرو کیونکہ آنکھیں روح کا پیچھا کرتی ہیں (اس لیے کھلی رہ جاتی ہیں) اور خیر کی بات کہا کرو اس لیے کہ میت کے گھرانے والے جو کچھ کہتے ہیں اس پر (فرشتوں کی طرف سے) آمین کہی جاتی ہے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17136]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف قزعة
سیدنا شداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ (کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ وہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسا حکم سنتے جس میں سختی ہوتی وہ اپنی قوم میں واپس جاتے اور ان تک یہ پیغام پہنچا دیتے بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں رخصت دے دیتے لیکن سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اسے سننے سے رہ جاتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ اسی سختی والے حکم کے ساتھ چمٹے رہتے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17137]
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک آدمی ماہ رمضان کی اٹھارویں رات کو سینگی لگا رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے مقام بقیع میں گزرے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، اسے اس حال میں دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سینگی لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17138]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، والرجل المبهم الذى حدث عنه أبو قلابة هو أبو الأشعث الصنعاني
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے دو چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر مہربانی کرنے کا حکم لکھ دیا ہے، اس لیے جب تم (میدان جنگ میں) کسی کو قتل کرو تو بھلے طریقے سے کرو اور جب کسی جانور کو ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو اور تمہیں اپنی چھری تیز اور اپنے جانور کو آرام پہنچانا چاہیے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17139]
ابن غنم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب میں سیدنا ابوددداء رضی اللہ عنہ کے ساتھ ”جابیہ“ کی مسجد میں داخل ہوا تو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو گئی، انہوں نے اپنے بائیں ہاتھ سے میرا داہنا ہاتھ اور اپنے دائیں ہاتھ سے سیدنا ابودرداء رضی اللہ کا بایاں ہاتھ پکڑ لیا، اور خود ہمارے درمیان چلنے لگے، ہم راستے میں باتیں کرتے جا رہے تھے جن کا علم اللہ ہی کو زیادہ ہے۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اگر تم دونوں کی یا کسی ایک کی عمر لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ایک بہترین ”مسلمان“ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے قرآن پڑھا ہو، اسے دہرایا ہو اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھا اور اس کی منازل پر اترا ہو، یا اپنے اس بھائی سے قرآن پڑھا ہو جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھا تھا، اور مزکورہ سارے اعمال کیے ہوں اس طرح حیران ہو گا جیسے مردار گدھے کا سر حیران ہوتا ہے۔ اس گفتگو کے دوران سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ اور عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بھی تشریف لے آئے اور ہمارے پاس بیٹھ گئے، سیدنا شداد رضی اللہ عنہ کہنے لگے لوگو! میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں تم پر سب سے زیادہ جس چیز سے خطرہ محسوس کرتا ہوں وہ شہوت خفیہ اور شرک ہے، یہ سن کر سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہنے لگے، اللہ معاف فرمائے! کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ بیان نہیں فرمایا تھا کہ شیطان جزیرہ عرب میں اپنی عبادت کی امید سے مایوس ہو چکا ہے؟ ”شہوت خفیہ“ تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد دنیا کی خواہشات مثلاً عورتیں اور ان کی خواہشات ہیں، لیکن شداد! یہ کون سا شرک ہے جس سے آپ ہمیں ڈرا رہے ہو؟ سیدنا شداد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ اگر تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ کسی دوسرے کو دکھانے کے لئے نماز، روزہ، صدقہ کرتا ہے کیا وہ شرک کرتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں! بخدا! وہ وہ شرک کرتا ہے، سیدنا شداد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو دکھاوے کے لئے نماز پڑھتا ہے، وہ شرک کرتا ہے، جو دکھاوے کے لئے روزہ رکھتا ہے وہ شرک کرتا ہے اور جو دکھاوے کے لئے صدقہ کرتا ہے وہ شرک کرتا ہے۔ سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہنے لگے، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اعمال میں اخلاص کا حصہ قبول کر لیا جائے اور شرک کا حصہ چھوڑ دیا جائے؟ سیدنا شداد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ فرماتے ہیں، میں بہترین حصہ دار ہوں، اس شخص کے لئے جو میرے ساتھ شرک کرتا ہے، اور وہ اس طرح کہ جو شخص میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھراتا ہے تو اس کا تھوڑا یا زیادہ سب عمل اس کے شریک کا ہو جاتا ہے اور میں اس سے بیزار ہو جاتا ہوں۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17140]