سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلی صف والوں کے لئے تین مرتبہ اور دوسری صف والوں کے لئے ایک مرتبہ استغفار کرتے تھے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17141]
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، وهذا إسناد منقطع بين خالد بن معدان وبين العرباض
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا وعظ فرمایا کہ جس سے لوگوں کی آنکھیں بہنے لگیں اور دل لرزنے لگے، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو ہمیں رخصتی کا وعظ معلوم ہوتا ہے، آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں ایسی واضح شریعت پر چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کی رات اور دن برابر ہیں، میرے بعد جو بھی اس سے کجی اختیار کرے گا وہ ہلاک ہو گا اور تم میں سے جو شخص زندہ رہے گا وہ عنقریب بہت سے اختلافات دیکھے گا لہٰذا تم میری جو سنت جانتے ہو اور خلفائے راشدین مھدیین کی سنتوں کو اپنے اوپر لازم پکڑو اور امیر کی اطاعت اپنے اوپر لازم کر لو خواہ وہ ایک حبشی غلام ہی ہوں ان باتوں کو اچھی طرح محفوظ کر لو کیونکہ مسلمان تو فرمابردار اونٹ کی طرح ہوتا ہے کہ اسے جہاں لے جایا جائے وہ چل پڑتا ہے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17142]
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد حسن
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان نے مجھے ایک مرتبہ سحری کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: ”اس مبارک کھانے کے لئے آ جاؤ۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17143]
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الحارث بن زياد، ويونس بن سيف مجهول
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر ایسا وعظ فرمایا کہ جس سے لوگوں کی آنکھیں بہنے لگیں اور دل لرزنے لگے، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو رخصتی کا وعظ معلوم ہوتا ہے، آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں ایسی واضح شریعت پر چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کی رات اور دن برابر ہیں، میرے بعد جو بھی اس سے کجی اختیار کرے گا، وہ ہلاک ہو گا، اور تم میں سے جو شخص زندہ رہے گا، وہ عنقریب بہت سے اختلافات دیکھے گا، لہٰذا تم میری جو سنتیں جانتے ہو اور خلفائے راشدین مھدیین کی سنتوں کو اپنے اوپر لازم پکڑو اور امیر کی اطاعت اپنے اوپر لازم کر لو خواہ وہ ایک حبشی غلام ہی ہو، ان باتوں کو اچھی طرح محفوظ کر لو، اور نو ایجاد چیزوں سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ ہر نو ایجاد چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17144]
عبدالرحمن بن عمرو اور حجر بن حجر کہتے ہیں کہ ہم لوگ سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ (جن کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی تھی)”ان لوگوں پر کوئی حرج نہیں جو آپ کے پاس آتے ہیں تاکہ انہیں سوار کر دیں۔۔۔“ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم نے انہیں سلام کر کے عرض کیا کہ ہم آپ سے ملاقات کے لئے، عیادت کے لئے اور آپ سے استفادے کے لیے حاضر ہوئے ہیں، انہوں فرمایا: ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر ایسا وعظ فرمایا کہ جس سے لوگوں کی آنکھیں بہنے لگیں اور دل لرزنے لگے، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ!! یہ تو رخصتی کا وعظ معلوم ہوتا ہے، آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں ایسی واضح شریعت پر چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کی رات اور دن برابر ہیں، میرے بعد جو بھی اس سے کجی اختیار کرے گا، وہ ہلاک ہو گا، اور تم میں سے جو شخص زندہ رہے گا، وہ عنقریب بہت سے اختلافات دیکھے گا، لہٰذا تم میری جو سنتیں جانتے ہو اور خلفائے راشدین مھدیین کی سنتوں کو اپنے اوپر لازم پکڑو اور امیر کی اطاعت اپنے اوپر لازم کر لو خواہ وہ ایک حبشی غلام ہی ہو، ان باتوں کو اچھی طرح محفوظ کر لو، اور نو ایجاد چیزوں سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ ہر نو ایجاد چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17145]
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلی صف والوں کے لئے تین مرتبہ اور دوسری صف والوں کے لئے ایک مرتبہ استغفار فرماتے تھے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17148]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع بين خالد بن معدان وبين العرباض بن سارية
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ جوان اونٹ فروخت کیا، کچہ عرصہ بعد میں قیمت کا تقاضہ کرنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے اونٹ کی قیمت ادا کر دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت اچھا، میں تمہیں اس کی قیمت میں چاندی ہی دوں گا“، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب بہترین طریقہ سے اس کی قیمت ادا کی۔ تھوڑی دیر بعد ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! مجھے میرا اونٹ دے دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک پکی عمر کا اونٹ دے دیا، اس نے کہا: یا رسول اللہ! یہ تو میرے اونٹ سے بہت عمدہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں میں سب سے بہترین وہ ہے جو ادائیگی میں سب سے بہترین ہو۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17149]
سیدنا عرباض رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس وقت بھی اللّٰہ کا بندہ اور خاتم النبیین تھا جب کہ سیدنا آدم علیہ السلام ابھی گارے میں ہی لتھڑے ہوئے تھے، اور میں تمہیں اس کی ابتداء بتاتا ہوں، میں اپنے جد امجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے دیکھا تھا اور تمام انبیاء کی مائیں اسی طرح خواب دیکھتی تھیں۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17150]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: «وكذلك أمهات المؤمنين ترين» ، وهذا إسناد ضعيف لضعف سعيد بن سويد الكلبي، واسم عبد الله بن هلال خطأ، والصواب: عبدالأعلى بن هلال، فهو مجهول الحال
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے، البتہ اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ نے بچے کی پیدائش کے وقت ایک نور دیکھا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17151]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف سعيد بن سويد، ولجهالة حال عبدالأعلى بن هلال
سیدنا عباس بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان میں مجھے ایک مرتبہ سحری کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: ”اس مبارک کھانے کے لئے آ جاؤ۔“ پھر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اے اللہ! معاویہ کو حساب اور کتاب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے محفوظ فرما۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17152]
حكم دارالسلام: حديث السحور منه حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الحارث بن زياد
سیدنا عرباض رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن پنجوں سے شکار کرنے والے ہر پرندے پالتو گدھوں کے گوشت جانوروں کے منہ سے چھڑائے ہوئے مردار جانور، نشانہ سیدھا کیے جانے والے جانور اور وضع حمل سے قبل باندیوں سے ہمبستری کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17153]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: «والخليسة» فحسن لغيره، وهذا إسناد محتمل للتحسين
سیدنا عرباض رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت میں سے ایک بال اٹھاتے اور فرماتے اس میں سے میرا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا تم میں سے کسی کا ہے سوائے خمس کے اور وہ بھی تم پر ہی لوٹا دیا جاتا ہے لہٰذا دھاگہ اور سوئی یا اس سے بھی کم درجے کی چیز ہو تو وہ واپس کر دو اور مال غنیمت میں خیانت سے بچو کیونکہ وہ قیامت کے دن خائن کے لیے باعث عار و ندامت ہو گی۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17154]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد محتمل للتحسين
سیدنا عرباض رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اسے اس پر بھی اجر ملتا ہے , چنانچہ میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور اسے پانی پلایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اسے سنائی۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17155]
حكم دارالسلام: صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه بين خالد والعرباض بن سارية، وخالد بن سعد هو خالد بن زيد على الصواب
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلی صف والوں کے لئے تین مرتبہ اور دوسری صف والوں کے لئے ایک مرتبہ استغفار فرماتے تھے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17156]
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلی صف والوں کے لئے تین مرتبہ اور دوسری صف والوں کے لئے ایک مرتبہ استغفار فرماتے تھے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17157]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، بقية بن الوليد يدلس ويسوي، لكنه متابع
سیدنا عرباض رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری عزت کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے میرے عرش کے سائے میں ہوں گے اس دن میرے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17158]
سیدنا عرباض رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”طاعون کی وبا کے متعلق پروردگار عالم کے سامنے شہداء اور طبی موت مرنے والوں کے درمیان جھگڑا ہو گا، شہداء کہیں گے کہ یہ ہمارے بھائی ہیں اور ہماری طرح شہید ہوئے اور طبعی موت مرنے والے کہیں گے یہ ہمارے بھائی ہیں ہماری طرح اپنے بستروں پر فوت ہوئے ہیں، پروردگار فرمائے گا کہ ان کے زخم دیکھو اگر ان کے زخم شہداء کے زخموں جیسے ہوں تو یہ شہداء میں شمار ہو کر ان کے ساتھ ہوں گے، جب دیکھا جائے گا تو ان کے زخم شہداء کے زخموں کے مشابہ ہو گی۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17159]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، ابن أبى بلال مجهول، وبقية بن الوليد يدلس ويسوي، لكنه متابع
سیدنا عرباض رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے پہلے «سبحِ» کے لفظ سے شروع ہونے والی سورتوں کی تلاوت فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ ان میں ایک آیت ایسی ہے جو ایک ہزار آیتوں سے افضل ہے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17160]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابن أبى بلال، وبقية يدلس ويسوي، ولم يصرح بالتحديث فى جميع طبقات الإسناد
سیدنا عرباض رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے صفّہ میں ہمارے پاس تشریف لائے، اور فرمانے لگے اگر تمہیں پتہ چل جائے کہ تمہارے لیے کیا کچھ ذخیرہ کیا گیا ہے، کہ ساری دنیا تمہارے لیے سمیٹ دی جائے گی، اور تمہارے ہاتھوں فارس و روم فتح ہو جائیں گے، تو تم کبھی غمگین نہ ہو۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17161]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، شريح بن عبيد لم يدرك العرباض بن سارية
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صف والوں کے لیے تین مرتبہ اور دوسری صف والوں کے لیے ایک مرتبہ استغفار فرماتے تھے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17162]
سیدنا عرباض رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس وقت بھی اللہ کا بندہ اور خاتم النبیین تھا جب کہ آدم علیہ السلام ابھی گارے میں ہی لتھڑے ہوۓ تھے اور میں تمہیں اس کی ابتداء بتاتا ہوں میں اپنے جد امجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا، سیدنا عیسٰی علیہ السلام کی بشارت، اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے دیکھا تھا کہ ان سے ایک نور نکلا جس نے شام کے محلات روشن کر دئیے اور تمام انبیاء کی مائیں اسی طرح خواب دیکھتی تھیں۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17163]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: «وكذلك ترى أمهات النبيين صلوات الله عليهم» ، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه بين سعيد بن سويد وبين العرباض، وأبو بكر ضعيف
سیدنا عرباض رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”طاعون کی وباء سے مرنے والوں کے متعلق پروردگار عالم کے سامنے شہداء اور طبعی موت مرنے والوں کے درمیان جھگڑا ہو گا۔، شہدا کہیں گے کہ یہ ہمارے بھائی ہیں، ہماری طرح شہید ہوئے ہیں، اور طبعی موت مرنے والے کہیں گے کہ یہ ہمارے بھائی ہیں اور ہماری طرح اپنے بستروں پر شہید ہوئے ہیں، پروردگار فرمائے گا کہ ان کے زخم دیکھو، اگر ان کے زخم شہداء کے زخموں کی طرح ہیں تو یہ شہداء میں شمار ہو کر ان کے ساتھ ہوں گے۔ جب دیکھا جائے گا تو ان کے زخم شہداء کے زخموں کے مشابہ ہوں گے۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17164]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة ابن أبى بلال