صحيح الادب المفرد
حصہ اول: احادیث 1 سے 249
11. باب بر الوالد المشرك
11. مشرک باپ سے بھلائی کرنا
حدیث نمبر: 18
18/24 (صحيح) عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ:: نَزَلَتْ فِيَّ أَرْبَعُ آيَاتٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى: كَانَتْ أُمِّي حَلَفَتْ، أَنْ لَا تَأْكُلَ وَلَا تَشْرَبَ، حَتَّى أُفَارِقَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطُعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا} [لقمان: 15]. وَالثَّانِيَةُ: أَنِّي كُنْتُ أَخَذْتُ سَيْفًا أَعْجَبَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَبْ لِي هَذَا. فَنَزَلَتْ: {يسألونك عن الأنفال}. وَالثَّالِثَةُ: أَنِّي مَرِضْتُ فَأَتَانِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَقْسِمَ مَالِي، أَفَأُوصِي بِالنِّصْفِ؟ فَقَالَ:"لَا". فَقُلْتُ: الثُّلُثُ؟ فَسَكَتَ، فَكَانَ الثُّلُثُ بَعْدَهُ جَائِزًا. وَالرَّابِعَةُ: إِنِّي شَرِبْتُ الْخَمْرَ مَعَ قَوْمٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَضَرَبَ رجل منهم أَنْفِي بلحيِ جملٍ (1)، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ عز وجل تحريم الخمر.
سیدنا سعد بن ابی وقاس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میرے بارے میں قرآن میں چار آیتیں نازل ہویں ہیں۔ میری والدہ نے قسم کھا لی تھی کہ جب تک میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑوں گا وہ کچھ نہ کھائیں گی نہ پئیں گی۔ اس وقت اﷲ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: «وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلاَ تُطعهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا» اور اگر وہ دونوں تجھ پر زور دیں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان کا کہنا مت مان اور دنیا میں اچھے طریقے سے ان کے ساتھ رہ۔ دوسری آیت: میں نے ایک تلوار لی جو مجھے اچھی لگی۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ مجھے حبہ کر دیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: «‏يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ» وہ تجھ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں اور تیسری آیت: میں بیمار پڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! میں اپنا مال غریبوں مسکینوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہوں۔ کیا میں نصف مال کی وصیت کر جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: کیا ایک تہائی کی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے لیکن آپ کے بعد ایک تہائی کی وصیت جائز ہو گئی۔ اور چوتھی آیت: میں نے انصار کے چند لوگوں کے ساتھ شراب پی، تو ان میں سے ایک شخص نے اونٹ کا جبڑا لے کر میری ناک پر مار دیا۔ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو اﷲ عزوجل نے شراب کی حرمت والی آیت نازل فرمائی۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 18]
تخریج الحدیث: (صحيح)

حدیث نمبر: 19
19/25 (صحيح) عن أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ: أَتَتْنِي أُمِّي رَاغِبَةً، فِي عَهْدِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أصِلُها؟ قَالَ:"نَعَمْ". قَالَ: ابْنُ عُيَيْنَةَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهَا: {لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدين} [الممتحنة: 8].
سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں میرے پاس میری ماں اسلام کی طرف راغب ہو کر آئیں۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، ابن عیینہ کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل کر دی: «‏لاَ يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ» اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی ہے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 19]
تخریج الحدیث: (صحيح)

حدیث نمبر: 20
20/26 (صحيح) عن ابن عمر قال: رَأَى عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حُلَّةً سِيَرَاءَ (2) تُبَاعُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! ابْتَعْ هَذِهِ، فَالْبَسْهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَإِذَا جَاءَكَ الْوُفُودُ. قَالَ:"إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لا خلاق له". فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا بِحُلَلٍ، فَأَرْسَلَ إِلَى عُمَرَ بِحُلَّةٍ، فَقَالَ: كَيْفَ أَلْبَسُهَا وَقَدْ قلتَ فِيهَا مَا قُلْتَ. قَالَ:"إِنِّي لَمْ أُعْطِكَهَا لِتَلْبَسَهَا، وَلَكِنْ تَبِيعَهَا أَوْ تَكْسُوَهَا". فَأَرْسَلَ بِهَا عُمَرُ إِلَى أَخٍ لَهُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے ایک ریشمی جبہ دیکھا جو بیچا جا رہا تھا تو کہا: یا رسول اﷲ! اس کو خرید لیں اور جمعہ کے دن یا جب کوئی وفد آئے اسے پہنا کیجیے۔ فرمایا: اس قسم کا لباس وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان میں سے کچھ حلے لائے گئے، ایک حلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا۔ تو عمر نے کہا: میں اس کو کیسے پہنوں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں جو فرمانا تھا فرما چکے ہیں؟ فرمایا: میں نے اس لیے تمہیں نہیں دیا کہ تم خود پہن لو بلکہ اس لیے دیا ہے کہ تم فروخت کر کے فائدہ اٹھا لو یا عورتوں کو پہنا دو۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ نے یہ جبہ مکہ میں اپنے بھائی کی طرف بھیج دیا اور ابھی وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 20]
تخریج الحدیث: (صحيح)