عن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «لو يعطى الناس بدعواهم لادعى ناس دماء رجال وأموالهم ولكن اليمين على المدعى عليه» متفق عليه وللبيهقي بإسناد صحيح: «البينة على المدعي واليمين على من أنكر» .
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اگر لوگوں کو محض ان کے دعوے کرنے سے حق دے دیا جائے تو لوگ دوسرے لوگوں کے خون اور ان کے اموال کا دعویٰ کریں گے لیکن مدعا علیہ کے ذمہ قسم لازم ہے۔“(بخاری و مسلم) اور بیہقی نے صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ گواہی (یا دلیل) مدعی کے ذمہ اور قسم اس کے ذمہ جو اس کا انکار کرے۔ [بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1210]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، التفسير، باب: ﴿إن الذين يشترون بعهد الله وأيما نهم ثمنًا قليلًا...﴾، حديث:4552، ومسلم، الأقضية، باب اليمين علي المدعي عليه، حديث:1711، وحديث البيهقي:8 /123، في سنده مسلم بن خالد الزنجي، وللحديث شواهدفهو حسن.»
حدیث نمبر: 1211
وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم عرض على قوم اليمين فأسرعوا فأمر أن يسهم بينهم في اليمين أيهم يحلف. رواه البخاري.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قوم پر قسم پیش کی تو وہ قسم کھانے پر فوراً تیار ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ” ان لوگوں میں قرعہ اندازی کی جائے کہ کون ان میں سے قسم کھائے گا۔“(بخاری)[بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1211]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الشهادات، باب إذا تسارع قوم في اليمين، حديث:2674.»
حدیث نمبر: 1212
وعن أبي أمامة الحارثي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «من اقتطع حق امرىء مسلم بيمينه فقد أوجب الله له النار وحرم عليه الجنة» فقال له رجل: وإن كان شيئا يسيرا يا رسول الله؟ قال: «وإن كان قضيبا من أراك» . رواه مسلم.
سیدنا ابوامامہ حارثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جس کسی نے اپنے مسلمان بھائی کا حق اپنی قسم کے ذریعے مارا۔ اس کے لیے اللہ نے دوزخ واجب کر دی اور اس پر جنت حرام قرار دے دی ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! اگرچہ کوئی حقیر و معمولی چیز ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” اگرچہ درخت پیلو کی ایک شاخ ہو۔“(مسلم)[بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1212]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الإيمان، باب وعيد من اقتطع حق مسلم بيمين فاجرة بالنار، حديث:137.»
حدیث نمبر: 1213
وعن الأشعث بن قيس رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «من حلف على يمين يقتطع بها مال امرىء مسلم هو فيها فاجر لقي الله وهو عليه غضبان» متفق عليه.
سیدنا اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو شخص قسم کھا کر کسی دوسرے کا مال اڑا لے اور وہ اس میں جھوٹا ہو تو اللہ تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر سخت ناراض ہو گا۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1213]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، المساقاة، باب الخصومة في البئر والقضاء فيها، حديث:2356، ومسلم، الإيمان، باب وعيدمن اقتطع حق مسلم.....،حديث:138.»
حدیث نمبر: 1214
وعن أبي موسى الأشعري رضي الله عنه أن رجلين اختصما إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في دابة ليس لواحد منهما بينة فقضى بها بينهما نصفين. رواه أحمد وأبو داود والنسائي وهذا لفظه وقال: إسناده جيد.
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روايت ہے كہ دو آدمیوں کا ایک جانور کے بارے میں جھگڑا ہوا۔ ان میں سے کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جانور کو ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا دینے کا فیصلہ فرمایا۔ اسے احمد، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے؟ یہ الفاظ نسائی کے ہیں۔ اس کی سند عمدہ ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1214]
وعن جابر رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «من حلف على منبري هذا بيمين آثمة تبوأ مقعده من النار» رواه أحمد وأبو داود والنسائي وصححه ابن حبان.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جس کسی نے میرے منبر پر کھڑے ہو کر جھوٹی قسم کھائی تو اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا۔“ احمد، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1215]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الأيمان والنذور، باب ما جاء في تعظيم اليمين عند منبر النبي صلي الله عليه وسلم، حديث:3246، والنسائي في الكبرٰي:3 /491، حديث:6018، وأحمد:2 /329، وابن حبان(الإحسان):6 /281، حديث:4353.»
حدیث نمبر: 1216
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «ثلاث لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم: رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه من ابن السبيل ورجل بايع رجلا بسلعة بعد العصر فحلف بالله لأخذها بكذا وكذا فصدقه وهو على غير ذلك ورجل بايع إماما لا يبايعه إلا للدنيا فإن أعطاه منها وفى وإن لم يعطه منها لم يف» متفق عليه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تین آدمی ایسے ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سے کلام نہیں کرے گا اور نہ ان کی جانب نظر (رحمت) کرے گا اور نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا بلکہ ان کیلئے دردناک عذاب ہو گا پہلا وہ آدمی جو ایک مسافر کو جنگل میں بچے ہوئے پانی سے روکتا ہے اور دوسرا وہ آدمی جو عصر کے بعد کسی چیز کا دوسرے سے سودا کرتا ہے اور اللہ کی قسم کھاتا ہے کہ اس نے اس چیز کو اتنے اتنے میں خریدا ہے حالانکہ حقیقت ایسے نہ تھی اور وہ خریدار اس کو سچ مان گیا اور تیسرا وہ شخص جس نے دنیاوی غرض کے لئے کسی بادشاہ کی بیعت کی اگر بادشاہ اس کو کچھ دیتا ہے تو وہ وفا کرتا ہے اور اگر وہ اس کو کچھ نہیں دیتا (یعنی دنیا کا مال) تو وہ وفا نہیں کرتا۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1216]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأحكام، باب من بايع رجلاً لا يبايعه إلا للدنيا، حديث:7212، ومسلم، الإيمان، باب بيان غلظ تحريم إسبال الإزار والمن بالعطية...، حديث:108.»
حدیث نمبر: 1217
وعن جابر رضي الله عنه: أن رجلين اختصما في ناقة فقال كل منهما: نتجت عندي وأقاما بينة فقضى بها رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لمن هي في يده.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمی ایک اونٹنی کا مقدمہ عدالت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لائے۔ ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ تھا کہ اونٹنی نے بچہ میرے ہاں جنا ہے اور دونوں نے اپنے اپنے گواہ بھی پیش کئے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے حق میں فیصلہ صادر فرمایا جس کے قبضہ میں اونٹنی تھی۔ [بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1217]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدار قطني:4 /209، وابن نعيم لا يعرف، وفيه علل أخري.»
حدیث نمبر: 1218
وعن ابن عمر رضي الله عنهماأن النبي صلى الله عليه وآله وسلم رد اليمين على طالب الحق. رواهما الدارقطني في إسنادهما ضعف.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی پر قسم ڈال دی۔ ان دونوں احادیث کو دارقطنی نے روایت کیا ہے اور دونوں کی سند میں ضعف ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1218]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني:4 /213، محمد بن مسروق لا يعرف، وفيه علة أخري.»
حدیث نمبر: 1219
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ذات يوم مسرورا تبرق أسارير وجهه فقال:«ألم تري إلى مجزز المدلجي: نظر آنفا إلى زيد بن حارثة وأسامة بن زيد فقال: هذه الأقدام بعضها من بعض» . متفق عليه.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوش و خرم میرے ہاں تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ انور چمک رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” کیا تجھے معلوم نہیں کہ مجزز مدلجی نے ابھی زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہم) کو دیکھ کر کہا ہے کہ یہ پاؤں ایک دوسرے کا جز ہیں۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1219]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الفرائض، باب القائف، حديث:6770، 3555، ومسلم، الرضاع، باب العمل بإلحاق القائف الولد، حديث:1459.»