وعن جابر رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «من حلف على منبري هذا بيمين آثمة تبوأ مقعده من النار» رواه أحمد وأبو داود والنسائي وصححه ابن حبان.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جس کسی نے میرے منبر پر کھڑے ہو کر جھوٹی قسم کھائی تو اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا۔“ احمد، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1215]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الأيمان والنذور، باب ما جاء في تعظيم اليمين عند منبر النبي صلي الله عليه وسلم، حديث:3246، والنسائي في الكبرٰي:3 /491، حديث:6018، وأحمد:2 /329، وابن حبان(الإحسان):6 /281، حديث:4353.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1215
تخریج: «أخرجه أبوداود، الأيمان والنذور، باب ما جاء في تعظيم اليمين عند منبر النبي صلي الله عليه وسلم، حديث:3246، والنسائي في الكبرٰي:3 /491، حديث:6018، وأحمد:2 /329، وابن حبان(الإحسان):6 /281، حديث:4353.»
تشریح: اس حدیث میں تنبیہ ہے کہ جو مقام جتنا مرتبے اور فضیلت والا ہوگا وہاں ارتکاب گناہ کا عذاب بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ اسی طرح وہ اوقات جن کی فضیلت بیان ہوئی ہے‘ مثلاً: عصر کے بعد اور جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات‘ تو ان میں جو گناہ کیا جائے گا اس کی سزا بھی نسبتاً زیادہ اور سخت ہوگی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1215
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3246
´منبرنبوی کے پاس جھوٹی قسم کھانے پر وارد وعید کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص میرے منبر کے پاس جھوٹی قسم کھائے گا اگرچہ ایک تازی مسواک کے لیے کھائے تو سمجھ لو اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا“ یا یہ کہا: ”جہنم اس پر واجب ہو گئی ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3246]
فوائد ومسائل: مسجد نبوی ﷺ میں ریاض الجنۃ اور منبر نبوی ﷺ جو کہ محشر میں حوض پر ہوں گے۔ جیسے عظیم متبرک مقامات کی پروا نہ کرتے ہوئے جھوٹ بولنا اور جھوٹی قسم کھانا انتہائی بدبختی کی علامت ہے۔ عام مساجد کا بھی یہی حکم ہے۔ کہ اس سے قسم کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3246