عن جابربن عبد الله رضي الله عنهما: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال:«أعطيت خمسا لم يعطهن أحد قبلي: نصرت بالرعب مسيرة شهر وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا فأيما رجل أدركته الصلاة فليصل» . وذكر الحديث وفي حديث حذيفة رضي الله عنه عند مسلم:«وجعلت تربتها لنا طهورا إذا لم نجد الماء» وعن علي عند أحمد: «وجعل التراب لي طهورا»
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا فرمائی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی (نبی و رسول) کو بھی نہیں دی گئیں۔ میری ایک مہینہ کی مسافت سے (دشمن پر) رعب و دبدبے سے مدد دی گئی ہے۔ ساری زمین میرے لئے سجدہ گاہ اور طہارت و پاکیزگی کا ذریعہ بنائی گئی ہے، اب جس آدمی کو (جہاں بھی) نماز کا وقت آ جائے اسے نماز پڑھ لینی چاہیئے۔“ اور آگے پوری حدیث ذکر کی۔ مسلم میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”جب ہمیں پانی دستیاب نہ ہو تو زمین کی مٹی ہمارے لئے حصول طہارت و پاکیزگی کیلئے پاک بنا دی گئی ہے۔“ مسند احمد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ”مٹی میرے لئے حصول طہارت کا ذریعہ بنا دی گئی ہے۔“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 109]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، التيمم، باب(1)، حديث:335، ومسلم، المساجد، باب المساجد ومواضع الصلاة، حديث:521، [وحديث حذيفة، المساجد، باب المساجد و مواضع الصلاة، حديث:522] * وحديث علي أخرجه أحمد:1 / 98 وهو حديث حسن صحيح.»
حدیث نمبر: 110
وعن عمار بن ياسر رضي الله عنهما قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في حاجة، فأجنبت، فلم أجد الماء، فتمرغت في الصعيد، كما تتمرغ الدابة، ثم أتيت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فذكرت له ذلك. فقال:«إنما يكفيك أن تقول بيديك هكذا» ، ثم ضرب بيديه الأرض ضربة واحدة ثم مسح الشمال على اليمين وظاهر كفيه ووجهه. متفق عليه واللفظ لمسلم. وفي رواية للبخاري: وضرب بكفيه الأرض ونفخ فيهما ثم مسح بهما وجهه وكفيه.
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ضرورت و حاجت کے سلسلے میں بھیجا۔ میں جنبی ہو گیا اور پانی مجھے دستیاب نہ ہو سکا تو میں مٹی میں اس طرح لوٹ پوٹ ہوا جس طرح چوپایہ لوٹ پوٹ ہوتا ہے۔ (ضرورت سے فارغ ہو کر) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تجھے اپنے ہاتھ سے اس طرح کر لینا ہی کافی تھا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک مرتبہ زمین پر مارا پھر بائیں کو دائیں پر ملا اپنے ہاتھوں کی پشت اور چہرے پر۔ (بخاری اور مسلم) اور متن حدیث کے الفاظ مسلم کے ہیں۔ اور بخاری کی روایت میں ہے کہ اپنی دونوں ہتھیلیاں زمین پر ماریں اور پھونک مار کر گرد و غبار اڑا دیا پھر ان کو اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مل لیا۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 110]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، التيمم، باب التيمم ضربة، حديث:348، ومسلم، الحيض، باب التيمم، حديث:368.»
حدیث نمبر: 111
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «التيمم ضربتان: ضربة للوجه وضربة لليدين إلى المرفقين» . رواه الدارقطني وصحح الأئمة وقفه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ”تیمم دو ضربوں سے (مکمل) ہوتا ہے، ایک ضرب چہرے کے لیے اور ایک دونوں ہاتھوں کے لیے کہنیوں تک۔“ اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے اور ائمہ نے اس کے موقوف کو صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 111]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني في سننه:1 / 180، وقال الذهبي في تلخيص المستدرك:1 / 179، "بل(علي بن ظبيان) واه، قال ابن معين: ليس بشيء، وقال النسائي: "ليس بثقة"، وللحديث شواهد ضعيفة.»
حدیث نمبر: 112
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله: «الصعيد وضوء المسلم وإن لم يجد الماء عشر سنين. فإذا وجد الماء فليتق الله وليمسه بشرته» . رواه البزار وصححه ابن القطان لكن صوب الدارقطني إرساله، وللترمذي عن أبي ذر نحوه وصححه والحاکم أيضا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مٹی مومن مسلمان کا وضو ہے خواہ دس برس تک اسے پانی نہ ملے۔ مگر جب پانی دستیاب ہو جائے تو پھر اللہ سے ڈرنا چاہیئے اور اسے اپنے جسم پر پانی پہنچانا چاہیئے۔“ اسے بزار نے روایت کیا ہے اور ابن قطان نے صحیح قرار دیا ہے، تاہم دارقطنی نے اس کے مرسل ہونے کو درست اور قرین صواب کہا ہے۔ ترمذی میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے، اسے ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے اور حاکم نے بھی صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 112]
تخریج الحدیث: «أخرجه البزار، في كش الأستار: 1 / 157، حديث: 310 وهو حديث حسن بالشواهد، والترمذي، الطهارة، حديث:124، من أبي ذر رضي الله عنه، وأبوداود، الطهارة، حديث: 332 وسنده حسن.»
حدیث نمبر: 113
وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: خرج رجلان في سفر فحضرت الصلاة وليس معهما ماء فتيمما صعيدا طيبا فصليا ثم وجدا الماء في الوقت، فأعاد أحدهما الصلاة والوضوء، ولم يعد الآخر، ثم أتيا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فذكرا ذلك له، فقال للذي لم يعد: «أصبت السنة وأجزأتك صلاتك» وقال للآخر:«لك الأجر مرتين» . رواه أبو داود والنسائي.
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ دو آدمی سفر پر نکلے۔ نماز کا وقت آ گیا، مگر ان کے پاس پانی نہیں تھا۔ دونوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھ لی۔ پھر پانی بھی دستیاب ہو گیا اور ابھی نماز ادا کرنے کا وقت باقی تھا۔ ان میں سے ایک صاحب نے وضو کیا اور دوبارہ نماز ادا کی، مگر دوسرے صاحب نے نہ تو وضو کیا اور نہ ہی نماز دہرائی۔ سفر سے واپسی پر وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا واقعہ سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو جس نے دوبارہ نماز نہیں پڑھی تھی فرمایا ”تو نے سنت کے مطابق عمل کیا اور تیری نماز کافی ہو گئی۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے سے فرمایا ”تجھے دو گنا اجر ملے گا۔“(ابوداؤد و نسائی)[بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 113]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الطهارة، باب في المتيمم يجد الماء بعد ما يصلي في الوقت، حديث:338، والنسائي، الطهارة، حديث:433.»
حدیث نمبر: 114
وعن ابن عباس رضي الله عنهما في قوله عز وجل «وإن كنتم مرضى أو على سفر» قال:"إذا كانت بالرجل الجراحة في سبيل الله والقروح، فيجنب، فيخاف أن يموت إن اغتسل: تيمم". رواه الدارقطني موقوفا، ورفعه البزار، وصححه ابن خزيمة، والحاكم.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «وإن كنتم مرضى أو على سفر» کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ جب کسی شخص کو راہ خدا میں زخم اور گھاؤ لگے اور اسی حالت میں اسے جنابت لاحق ہو جائے اور غسل کرنے کی صورت میں مر جانے کا اندیشہ ہو تو وہ تیمم کر لے۔ اس روایت کو دارقطنی نے موقوف، بزار نے مرفوع اور ابن خزیمہ اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 114]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني:1 / 177، وابن خزيمة:1 / 138، حديث:272، وابن الجارود:129* جرير سمع من عطاء بن السائب بعد اختلاطه.»
حدیث نمبر: 115
وعن علي رضي الله عنه قال: انكسرت إحدى زندي، فسألت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فأمرني أن أمسح على الجبائر. رواه ابن ماجه بسند واه جدا.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرا گٹ ٹوٹ گیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کے بارے میں پوچھا (کہ اب میں کیا کروں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”پٹیوں پر مسح کر لیا کرو۔“ اسے ابن ماجہ نے نہایت ہی کمزور و ضعیف سند سے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 115]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن ماجه، الطهارة، باب المسح علي الجبائر، حديث: 657* عمروبن خالد الواسطي كذاب كما قال أحمد وغيره، وقال البخاري: منكر الحديث.»
حدیث نمبر: 116
وعن جابر رضي الله عنه في الرجل الذي شج فاغتسل فمات: «إنما كان يكفيه أن يتيمم ويعصب على جرحه خرقة ثم يمسح عليها ويغسل سائر جسده» . رواه أبو داود بسند ضعيف وفيه اختلاف على روايه.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس شخص کے بارے میں جس کے سر پر زخم آیا تھا اور اسی حالت میں اس نے غسل کر لیا اور وفات پا گیا، کہ اسے تو تیمم کر لینا ہی کافی تھا۔ اپنے زخم پر پٹی باندھ کر مسح کرتا اور باقی بدن کو دھو لیتا۔ اس روایت کو ضعیف سند کے ساتھ ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اس کے راویوں میں بھی اختلاف ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 116]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الطهارة، باب المجدور يتيمم، حديث:336- الزبير بن خريق، حديثه ضعيف.»
حدیث نمبر: 117
وعن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما قال: من السنة أن لا يصلي الرجل بالتيمم إلا صلاة واحدة، ثم يتيمم للصلاة الأخرى. رواه الدارقطني بإسناد ضعيف جدا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سنت یہی ہے کہ تیمم کرنے والا شخص تیمم سے ایک ہی نماز پڑھے اور دوسری نماز کیلئے ازسرنو (دوبارہ سے) تیمم کرے۔ اس کو دارقطنی نے بہت ہی ضعیف سند سے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 117]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني:1 / 185، فيه الحسن بن عمارة وهو متروك.»