وعن ابن عباس رضي الله عنهما في قوله عز وجل «وإن كنتم مرضى أو على سفر» قال:"إذا كانت بالرجل الجراحة في سبيل الله والقروح، فيجنب، فيخاف أن يموت إن اغتسل: تيمم". رواه الدارقطني موقوفا، ورفعه البزار، وصححه ابن خزيمة، والحاكم.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «وإن كنتم مرضى أو على سفر» کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ جب کسی شخص کو راہ خدا میں زخم اور گھاؤ لگے اور اسی حالت میں اسے جنابت لاحق ہو جائے اور غسل کرنے کی صورت میں مر جانے کا اندیشہ ہو تو وہ تیمم کر لے۔ اس روایت کو دارقطنی نے موقوف، بزار نے مرفوع اور ابن خزیمہ اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 114]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني:1 / 177، وابن خزيمة:1 / 138، حديث:272، وابن الجارود:129* جرير سمع من عطاء بن السائب بعد اختلاطه.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 114
لغوی تشریح: «مَرْضٰي» الف مقصورہ کے ساتھ ہے۔ مریض کی جمع ہے، یعنی بیمار آدمی۔ «عَلٰي سَفَرٍ» «عَلٰي»، «فِي» کے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی مسافر ہو۔ اس آیت کے بعد والے کچھ الفاظ یہ ہیں: «أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا»[المائدة 5: 6] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تفسیر یوں بیان فرمائی کہ جب کسی شخص کو۔۔۔ الخ۔ «اَلْجِرَاحَةُ» «جَرْح» سے ماخوذ ہے اور اس سے ایسا زخم مراد ہے جو اسلحہ وغیرہ کا ہو۔ «اَلْقُرُوحُ» «قَرْح» کی جمع ہے جس کے معنی پھوڑے کے ہیں، اور قرآنی آیت میں قروح ان زخموں اور گھاؤ کے لیے استعمال ہوا ہے جو میدان جنگ میں اسلحہ کی وجہ سے لگیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشار ہے: «اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ»[آل عمران 3: 140]”اگر (آج) تمہیں زخم لگا ہے تو اسی طرح کا زخم ان لوگوں کو بھی لگ چکا ہے۔“
فوائد و مسائل: ➊ ”اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو اور تمہیں پانی دستیاب نہ ہو سکے تو تم تیمّم کرو۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب نماز پڑھنا چاہو اور وضو یا غسل میں کوئی امر مانع ہو تو تیمّم کر کے نماز پڑھ لو۔ ➋ اس آیت میں بیماری اور مرض سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد معمولی پھوڑا پھنسی اور خراش تو بہرحال نہیں ہو سکتے، لہٰذا اس سے مراد وہ بیماری ہے جسے عرف عام میں بیماری و مرض سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ بیماری کس درجے کی ہو تو تیمّم جائز ہے، اس بارے میں ائمہ کے مابین اختلاف ہے۔ ➌ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ایسی بیماری میں تیمّم جائز ہے جس سے انسان کی موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو یا کسی عضو اور حصہ جسم کے ضائع یا عیب دار ہونے کا خوف ہو۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اگر بیماری کے طول پکڑ جانے کا ڈر ہو تب بھی تیمم جائز ہے۔ ➍ اس آیت میں سفر میں ہونے کی صورت میں بھی تیمم کرنے کی اجازت ہے۔ اس سفر سے وہ سفر مراد نہیں ہے جس میں نماز قصر اور روزہ افطار کرنے کی اجازت ہے بلکہ اس سفر سے مطلق سفر مراد ہے اور مقصود اس سے صرف سفر میں پانی کا نہ ہونا ہے۔ امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے۔ ➎ ہمارے محقق کے نزدیک یہ روایت سنداً ضعیف ہے جبکہ دیگر محدثین کی بھی اس حدیث کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ اس معاملے میں دارقطنی کی رائے زیادہ صحیح ہے جیسا کہ بزار کہتے ہیں کہ اس روایت کو جریر کے علاوہ کسی ثقہ راوی نے عطاء سے سماع اس موقع پر ہے جب ان کے حافظے میں اختلاط پیدا ہو چکا تھا۔ اس اعتبار سے اس کا مرفوع ہونا درست نہ ہوا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 114