حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 336
´زخمی تیمم کر سکتا ہے`
«. . . فَقَالَ:" قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ، أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ يَعْلَمُوا، فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالُ، إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ أَنْ يَتَيَمَّمَ وَيَعْصِرَ أَوْ يَعْصِبَ شَكَّ مُوسَى عَلَى جُرْحِهِ خِرْقَةً ثُمَّ يَمْسَحَ عَلَيْهَا وَيَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِهِ . . .»
”. . .آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ ان کو مارے، جب ان کو مسئلہ معلوم نہیں تھا تو انہوں نے کیوں نہیں پوچھ لیا؟ نہ جاننے کا علاج پوچھنا ہی ہے، اسے بس اتنا کافی تھا کہ تیمم کر لیتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا (یہ شک موسیٰ کو ہوا ہے)، پھر اس پر مسح کر لیتا اور اپنے باقی جسم کو دھو ڈالتا . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 336]
فائدہ: الزبیر بن خریق کو جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔
اس مفہوم کی صحیح حدیث کے لیے دیکھئے حدیث مشکوۃ المصابیح [532] لیکن اس میں یہ اضافہ نہیں ہے کہ ”اس کے لیے یہی کافی تھا کہ تیمم کر لیتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا، پھر اس پر مسح کرتا اور (باقی) سارے جسم کو دھو لیتا۔“ ان الفاظ کے علاوہ باقی حدیث ثابت ہے۔
جس سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
➊ بغیر علم کے فتویٰ دینا جائز نہیں ہے۔
➋ بغیر علم کے دیئے گئے فتویٰ کا وبال مفتی پر ہے۔
➌ اگر کسی مسئلے کا علم نہ ہو تو اہل علم سے پوچھ لینا چاہئیے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ» [16-النحل:43]
”اگر تم نہیں جانتے تو ذکر والوں (اہل علم) سے پوچھ لو۔“
➍ جہالت کے اندھیرے علم کے نور ہی سے چھٹتے ہیں۔
ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 133، حدیث/صفحہ نمبر: 7