وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: خرج رجلان في سفر فحضرت الصلاة وليس معهما ماء فتيمما صعيدا طيبا فصليا ثم وجدا الماء في الوقت، فأعاد أحدهما الصلاة والوضوء، ولم يعد الآخر، ثم أتيا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فذكرا ذلك له، فقال للذي لم يعد: «أصبت السنة وأجزأتك صلاتك» وقال للآخر:«لك الأجر مرتين» . رواه أبو داود والنسائي.
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ دو آدمی سفر پر نکلے۔ نماز کا وقت آ گیا، مگر ان کے پاس پانی نہیں تھا۔ دونوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھ لی۔ پھر پانی بھی دستیاب ہو گیا اور ابھی نماز ادا کرنے کا وقت باقی تھا۔ ان میں سے ایک صاحب نے وضو کیا اور دوبارہ نماز ادا کی، مگر دوسرے صاحب نے نہ تو وضو کیا اور نہ ہی نماز دہرائی۔ سفر سے واپسی پر وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا واقعہ سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو جس نے دوبارہ نماز نہیں پڑھی تھی فرمایا ”تو نے سنت کے مطابق عمل کیا اور تیری نماز کافی ہو گئی۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے سے فرمایا ”تجھے دو گنا اجر ملے گا۔“(ابوداؤد و نسائی)[بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 113]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الطهارة، باب في المتيمم يجد الماء بعد ما يصلي في الوقت، حديث:338، والنسائي، الطهارة، حديث:433.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 113
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر تیمّم کر کے نماز ادا کر لی گئی ہو اور بعد میں دوران وقت ہی میں پانی مل گیا ہو تو ایسی صورت میں نماز دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ فقہائے اربعہ کا یہی مذہب ہے۔ ➋ جس آدمی نے نماز دوبارہ پڑھی تھی اسے دوگنا اجر ملنے کی توجیہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک اجر تو اسے نماز پڑھنے کا ملا اور دوسرا اجتہاد کرنے کا۔ ➌ اجتہاد اگرچہ درست نہیں تھا تاہم محنت و کوشش پر بھی ایک اجر ملتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 113
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 338
´تمیم کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز کفایت کر جاتی ہے، دہرانے کی ضرورت نہیں` «. . . عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: خَرَجَ رَجُلَانِ فِي سَفَرٍ فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ وَلَيْسَ مَعَهُمَا مَاءٌ فَتَيَمَّمَا صَعِيدًا طَيِّبًا فَصَلَّيَا، ثُمَّ وَجَدَا الْمَاءَ فِي الْوَقْتِ فَأَعَادَ أَحَدُهُمَا الصَّلَاةَ وَالْوُضُوءَ وَلَمْ يُعِدِ الْآخَرُ، ثُمَّ أَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لِلَّذِي لَمْ يُعِدْ: أَصَبْتَ السُّنَّةَ وَأَجْزَأَتْكَ صَلَاتُكَ، وَقَالَ لِلَّذِي تَوَضَّأَ وَأَعَادَ: لَكَ الْأَجْرُ مَرَّتَيْنِ . . .» ”. . . ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخص ایک سفر میں نکلے تو نماز کا وقت آ گیا اور ان کے پاس پانی نہیں تھا، چنانچہ انہوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی، پھر وقت کے اندر ہی انہیں پانی مل گیا تو ان میں سے ایک نے نماز اور وضو دونوں کو دوہرایا، اور دوسرے نے نہیں دوہرایا، پھر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان دونوں نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا: جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی: ”تم نے سنت کو پا لیا اور تمہاری نماز تمہیں کافی ہو گئی“، اور جس شخص نے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھی تھی اس سے فرمایا: تمہارے لیے دوگنا ثواب ہے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 338]
فقہ الحدیث: ➊ پانی میسر نہ ہونے کی صورت میں تمیم کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز کفایت کر جاتی ہے، دہرانے کی ضرورت نہیں، اگرچہ نماز کے وقت ہی میں پانی مل جائے، جیسا کہ حدیث سے واضح ہو رہا ہے۔ ➋ جس شخص نے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھی، اس کی اِس دہری مشقت کی وجہ سے اسے ”دہرے اجر“ کی نوید سنائی گئی ہے۔ ➌ واضح نص نہ ہونے کی بنا پر اجتہاد کیا جا سکتا ہے، لیکن نصوص کتاب و سنت کی موجودگی میں کوئی اجتہاد نہیں، اسی طرح دلائل واضح ہونے کے بعد وہ اجتہاد کالعدم قرار پائے گا، لہٰذا اب اس سلسلے میں صحابی کے اجتہاد کی بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل ہو گا۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 433
´تیمم سے نماز پڑھنے کے بعد اگر پانی مل جائے تو کیا حکم ہے؟` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے تیمم کر کے نماز پڑھ لی، پھر انہیں وقت کے اندر ہی پانی مل گیا، تو ان میں سے ایک شخص نے وضو کر کے وقت کے اندر نماز دوبارہ پڑھ لی، اور دوسرے نے نماز نہیں دہرائی، ان دونوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کیا، تو آپ نے اس شخص سے جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی فرمایا: ”تم نے سنت کے موافق عمل کیا، اور تمہاری نماز تمہیں کفایت کر گئی“، اور دوسرے سے فرمایا: ”رہے تم تو تمہارے لیے دوہرا اجر ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 433]
433۔ اردو حاشیہ: ➊ اصل قاعدہ یہی ہے کہ تیمم پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو کی طرح ہے، لہٰذا نماز دہرانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اس شخص کا اجتہاد صحیح تھا تبھی اسے ”سنت“ فرمایا اور دوسرے شخص کا اجتہاد اگرچہ صحیح نہیں مگر چونکہ نیت نیک ہے، مشقت بھی زیادہ اٹھائی ہے اور عمل صالح بھی دو مرتبہ کیا ہے، لہٰذا وہ ثواب کا حق دار بنا۔ لیکن اب دہرانے کی اجازت نہیں کیونکہ مسئلہ واضح ہو چکا ہے اور سنت متعین ہو چکی ہے۔ اب اجتہاد کی ضرورت ہے نہ اجازت۔ اور ایک فرض نماز دو دفعہ فرض کی نیت سے پڑھنا ممنوع ہے۔ ➋ «سَهْمِ جَمْعٍ» کے معنی ہیں: دہرا ثواب، یعنی پہلی نماز کا بھی اور دوسری کا بھی۔ بعض حضرات نے اس کے معنی لشکر کا حصہ، یعنی ”غنیمت“ کیے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 433