وعن علي رضي الله عنه قال: انكسرت إحدى زندي، فسألت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فأمرني أن أمسح على الجبائر. رواه ابن ماجه بسند واه جدا.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرا گٹ ٹوٹ گیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کے بارے میں پوچھا (کہ اب میں کیا کروں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”پٹیوں پر مسح کر لیا کرو۔“ اسے ابن ماجہ نے نہایت ہی کمزور و ضعیف سند سے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 115]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن ماجه، الطهارة، باب المسح علي الجبائر، حديث: 657* عمروبن خالد الواسطي كذاب كما قال أحمد وغيره، وقال البخاري: منكر الحديث.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 115
� لغوی تشریح: «زَنْدَيَّ»”زا“ پر فتحہ، ”نون“ ساکن اور ”یا“ پر تشدید ہے۔ ”زند“ کا تثنیہ ہے اور یائے متکلم کی طرف مضاف ہے۔ اور ”زند“ سے مراد ہتھیلی کی جانب بازو کا جوڑ ہے جسے «رُسْغٌ»، یعنی گٹا (کلائی) کہتے ہیں۔ «اَلْجَبَائِر» «جَبِيرَة» کی جمع ہے۔ کپڑے یا لکڑی کا ٹکڑا جسے ٹوٹی ہوئی ہڈی پر مضبوطی سے لپیٹ کر باندھا جاتا ہے۔ «وَاهٍ» «وَهٰي يَهِي وَهِيًا» اور «وُهِيًّا» سے ماخوذ ہے۔
فوائد و مسائل:
نہایت کمزور اور ضعیف۔ اس حدیث کے ضعیف ہونے کا سبب یہ ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی عمرو بن خالد واسطی ہے۔ وہ نہایت جھوٹا اور دروغ گو آدمی تھا۔ امام نووی رحمہ اللہ کے بقول اس حدیث کے ضعیف ہونے پر حفاظ حدیث کا اتفاق ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 115
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث657
´پٹیوں پر مسح کرنے کا بیان۔` علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری ایک کلائی ٹوٹ گئی، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا؟، تو آپ نے مجھے پٹیوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 657]
اردو حاشہ: اس روایت میں بیان کردہ مسئلہ درست ہے کیونکہ ایسا شخص شرعا معذور ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 657