ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، ہم کو قیس بن ابوحازم نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ بدر کی لڑائی میں وہ ابوجہل کے قریب سے گزرے ابھی اس میں تھوڑی سی جان باقی تھی اس نے ان سے کہا اس سے بڑا کوئی اور شخص ہے جس کو تم نے مارا ہے؟ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3961]
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اور دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا، مجھ سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان تیمی نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کوئی ہے جو معلوم کرے کہ ابوجہل کا کیا حشر ہوا؟“ ابن مسعود رضی اللہ عنہ حقیقت حال معلوم کرنے آئے تو دیکھا کے عفراء کے بیٹوں (معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہما) نے اسے قتل کر دیا ہے اور اس کا جسم ٹھنڈا پڑا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا، کیا تو ہی ابوجہل ہے؟ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کی ڈاڑھی پکڑ لی۔ ابوجہل نے کہا، کیا اس سے بھی بڑا کوئی آدمی ہے جسے تم نے آج قتل کر ڈالا ہے؟ یا (اس نے یہ کہا کہ کیا اس سے بھی بڑا) کوئی آدمی ہے جسے اس کی قوم نے قتل کر ڈالا ہے؟ احمد بن یونس نے (اپنی روایت میں) «أنت» ابوجھل کے الفاظ بیان کئے ہیں۔ یعنی انہوں نے یہ پوچھا، کیا تو ہی ابوجہل ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3962]
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے سلیمان تیمی نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی لڑائی کے دن فرمایا ”کون دیکھ کر آئے گا کہ ابوجہل کا کیا ہوا؟“ ابن مسعود رضی اللہ عنہ معلوم کرنے گئے تو دیکھا کے عفراء کے دونوں لڑکوں نے اسے قتل کر دیا تھا اور اس کا جسم ٹھنڈا پڑا ہے۔ انہوں نے اس کی ڈاڑھی پکڑ کر کہا، تو ہی ابوجہل ہے؟ اس نے کہا، کیا اس سے بھی بڑا کوئی آدمی ہے جسے آج اس کی قوم نے قتل کر ڈالا ہے یا (اس نے یوں کہا کہ) تم لوگوں نے اسے قتل کر ڈالا ہے؟ مجھ سے ابن مثنیٰ نے بیان کیا، ہم کو معاذ بن معاذ نے خبر دی، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی، اسی طرح آگے حدیث بیان کی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3963]
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے یوسف بن ماجشون سے یہ حدیث لکھی، انہوں نے صالح بن ابراہیم سے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے صالح کے دادا (عبدالرحمٰن بن عوفص) سے، بدر کے بارے میں عفراء کے دونوں بیٹوں کی حدیث مراد لیتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3964]
مجھ سے محمد بن عبداللہ رقاشی نے بیان کیا، ہم سے معتمر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ابومجلز نے، ان سے قیس بن عباد نے اور ان سے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قیامت کے دن میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو اللہ تعالیٰ کے دربار میں جھگڑا چکانے کے لیے دو زانو ہو کر بیٹھے گا۔ قیس بن عباد نے بیان کیا کہ انہیں حضرات (حمزہ، علی اور عبیدہ رضی اللہ عنہم) کے بارے میں سورۃ الحج کی یہ آیت نازل ہوئی تھی «هذان خصمان اختصموا في ربهم»”یہ دو فریق ہیں جنہوں نے اللہ کے بارے میں لڑائی کی۔“ بیان کیا کہ یہ وہی ہیں جو بدر کی لڑائی میں لڑنے نکلے تھے، مسلمانوں کی طرف سے حمزہ، علی اور عبیدہ یا ابوعبیدہ بن حارث رضوان اللہ علیہم (اور کافروں کی طرف سے) شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3965]
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابوہاشم نے، ان سے ابومجلز نے، ان سے قیس بن عباد نے اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا آیت کریمہ «هذان خصمان اختصموا في ربهم»”یہ دو فریق ہیں جنہوں نے اللہ کے بارے میں مقابلہ کیا“ قریش کے چھ شخصوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی (تین مسلمانوں کی طرف کے یعنی علی، حمزہ اور عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہم اور (تین کفار کی طرف کے یعنی) شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3966]
ہم سے اسحاق بن ابراہیم صواف نے بیان کیا، ہم سے یوسف بن یعقوب نے بیان کیا، ان کا بنی ضبیعہ کے یہاں آنا جانا تھا اور وہ بنی سدوس کے غلام تھے۔ کہا ہم سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، ان سے ابومجلز نے اور ان سے قیس بن عباد نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا یہ آیت «هذان خصمان اختصموا في ربهم» ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3967]
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، ہم کو وکیع نے خبر دی، انہیں سفیان نے، انہیں ابوہاشم نے، انہیں ابومجلز نے، انہیں قیس بن عباد نے اور انہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ قسمیہ بیان کرتے تھے کہ یہ آیت ( «هذان خصمان اختصموا في ربهم») انہیں چھ آدمیوں کے بارے میں، بدر کی لڑائی کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔ پہلی حدیث کی طرح راوی نے اسے بھی بیان کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3968]
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، ہم سے ہشیم نے بیان کیا، ہم کو ابوہاشم نے خبر دی، انہیں ابومجلز نے، انہیں قیس نے، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ قسمیہ کہتے تھے کہ یہ آیت «هذان خصمان اختصموا في ربهم» ان کے بارے میں اتری جو بدر کی لڑائی میں مقابلے کے لیے نکلے تھے یعنی حمزہ، علی اور عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہم (مسلمانوں کی طرف سے) اور عتبہ، شیبہ، ربیعہ کے بیٹے اور ولید بن عتبہ (کافروں کی طرف سے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3969]
مجھ سے ابوعبداللہ احمد بن سعید نے بیان کیا، ہم سے اسحاق بن منصور سلولی نے بیان کیا، ہم سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ یوسف بن اسحاق نے اور ان سے ان کے دادا ابواسحاق سبیعی نے کہ ایک شخص نے براء رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور میں سن رہا تھا کہ کیا علی رضی اللہ عنہ بدر کی جنگ میں شریک تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں انہوں نے تو مبارزت کی تھی اور غالب رہے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3970]
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یوسف بن ماجشون نے بیان کیا، ان سے صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف نے، ان سے ان کے والد ابراہیم نے ان کے دادا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ امیہ بن خلف سے (ہجرت کے بعد) میرا عہد نامہ ہو گیا تھا۔ پھر بدر کی لڑائی کے موقع پر انہوں نے اس کے اور اس کے بیٹے (علی) کے قتل کا ذکر کیا۔ بلال نے (جب اسے دیکھ لیا تو) کہا کہ اگر آج امیہ بچ نکلا تو میں آخرت میں عذاب سے بچ نہیں سکوں گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3971]
ہم سے عبدان بن عثمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں ابواسحٰق نے، انہیں اسود نے اور انہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ مکہ میں) سورۃ النجم کی تلاوت کی اور سجدہ تلاوت کیا تو جتنے لوگ وہاں موجود تھے سب سجدہ میں گر گئے۔ سوائے ایک بوڑھے کے کہ اس نے ہتھیلی میں مٹی لے کر اپنی پیشانی پر اسے لگا لیا اور کہنے لگا کہ میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے اسے دیکھا کہ کفر کی حالت میں وہ قتل ہوا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3972]
مجھے ابراہیم بن موسیٰ نے خبر دی، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہشام نے، ان سے عروہ نے بیان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ کے جسم پر تلوار کے تین (گہرے) زخموں کے نشانات تھے۔ ایک ان کے مونڈھے پر تھا (اور اتنا گہرا تھا) کہ میں بچپن میں اپنی انگلیاں ان میں داخل کر دیا کرتا تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ ان میں سے دو زخم بدر کی لڑائی میں آئے تھے اور ایک جنگ یرموک میں۔ عروہ نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو (حجاج ظالم کے ہاتھوں سے) شہید کر دیا گیا تو مجھ سے عبدالملک بن مروان نے کہا: اے عروہ! کیا زبیر رضی اللہ عنہ کی تلوار تم پہچانتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں، پہچانتا ہوں۔ اس نے پوچھا اس کی نشانی بتاؤ؟ میں نے کہا کہ بدر کی لڑائی کے موقع پر اس کی دھار کا ایک حصہ ٹوٹ گیا تھا، جو ابھی تک اس میں باقی ہے۔ عبدالملک نے کہا کہ تم نے سچ کہا (پھر اس نے نابغہ شاعر کا یہ مصرع پڑھا) فوجوں کے ساتھ لڑتے لڑتے ان کی تلوارں کی دھاریں کی جگہ سے ٹوٹ گی ہیں“ پھر عبدالملک نے وہ تلوار عروہ کو واپس کر دی ‘ ہشام نے بیان کیا کہ ہمارا اندازہ تھا کہ اس تلوار کی قیمت تین ہزار درہم تھی۔ وہ تلوار ہمارے ایک عزیز (عثمان بن عروہ) نے قیمت دے کر لے لی تھی میری بڑی آرزو تھی کہ کاش! وہ تلوار میرے حصے میں آتی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3973]
ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا ‘ ان سے علی بن مسہر نے ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد عروہ نے بیان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ کی تلوار پر چاندی کا کام تھا۔ ہشام نے کہا کہ (میرے والد) عروہ کی تلوار پر چاندی کا کام تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3974]
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا ‘ ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا ‘ انہیں ہشام بن عروہ نے خبر دی ‘ انہیں ان کے والد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے زبیر رضی اللہ عنہ سے یرموک کی جنگ میں کہا آپ حملہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ حملہ کرتے انہوں نے کہا کہ اگر میں نے ان پر زور کا حملہ کر دیا تو پھر تم لوگ پیچھے رہ جاؤ گے سب بولے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ چنانچہ زبیر رضی اللہ عنہ نے دشمن (رومی فوج) پر حملہ کیا اور ان کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے نکل گئے۔ اس وقت ان کے ساتھ کوئی ایک بھی (مسلمان) نہیں رہا پھر (مسلمان فوج کی طرف) آنے لگے تو رومیوں نے ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور مونڈھے پر دو کاری زخم لگائے، جو زخم بدر کی لڑائی کے موقع پر ان کو لگا تھا وہ ان دونوں زخموں کے درمیان میں پڑ گیا تھا۔ عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ جب میں چھوٹا تھا تو ان زخموں میں اپنی انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتا تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ یرموک کی لڑائی کے موقع پر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ گئے تھے، اس وقت ان کی عمر کل دس سال کی تھی اس لیے ان کو ایک گھوڑے پر سوار کر کے ایک صاحب کی حفاظت میں دے دیا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3975]
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا انہوں نے روح بن عبادہ سے سنا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا، ہم سے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قریش کے چوبیس مقتول سردار بدر کے ایک بہت ہی اندھیرے اور گندے کنویں میں پھینک دئیے گئے۔ عادت مبارکہ تھی کہ جب دشمن پر غالب ہوتے تو میدان جنگ میں تین دن تک قیام فرماتے جنگ بدر کے خاتمہ کے تیسرے دن آپ کے حکم سے آپ کی سوای پر کجاوہ باندھا گیا اور آپ روانہ ہوئے آپ کے اصحاب بھی آپ کے ساتھ تھے صحابہ نے کہا، غالباً آپ کسی ضرورت کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں آخر آپ اس کنویں کے کنارے آ کر کھڑے ہو گئے اور کفار قریش کے مقتولین سرداروں کے نام ان کے باپ کے نام کے ساتھ لے کر آپ انہیں آواز دینے لگے کہ اے فلاں بن فلاں! اے فلاں بن فلاں! کیا آج تمہارے لیے یہ بات بہتر نہیں تھی کہ تم نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی؟ بیشک ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہمیں پوری طرح حاصل ہو گیا تو کیا تمہارے رب کا تمہارے متعلق جو وعدہ (عذاب کا) تھا وہ بھی تمہیں پوری طرح مل گیا؟ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پر عمر رضی اللہ عنہ بول پڑے: یا رسول اللہ! آپ ان لاشوں سے کیوں خطاب فرما رہے ہیں؟ جن میں کوئی جان نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو کچھ میں کہہ رہا ہوں تم لوگ ان سے زیادہ اسے نہیں سن رہے ہو۔“ قتادہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کر دیا تھا (اس وقت) تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنی بات سنا دیں ان کی توبیخ ‘ ذلت ‘ نامرادی اور حسرت و ندامت کے لیے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3976]
ہم سے حمیدی نے بیان کیا ‘ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ‘ ان سے عطاء نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ‘ قرآن مجید کی آیت «الذين بدلوا نعمة الله كفرا»(سورۃ ابراہیم 28) کے بارے میں آپ نے فرمایا اللہ کی قسم! یہ کفار قریش تھے۔ عمرو نے کہا کہ اس سے مراد قریش تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی نعمت تھے۔ کفار قریش نے اپنی قوم کو جنگ بدر کے دن «دار البوار» یعنی دوزخ میں جھونک دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3977]
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے ‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے کسی نے اس کا ذکر کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ میت کو قبر میں اس کے گھر والوں کے، اس پر رونے سے بھی عذاب ہوتا ہے۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ عذاب میت پر اس کی بدعملیوں اور گناہوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور اس کے گھر والے ہیں کہ اب بھی اس کی جدائی پر روتے رہتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3978]
انہوں نے کہا کہ اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے اس کنویں پر کھڑے ہو کر جس میں مشرکین کی لاشیں ڈال دی گئیں تھیں ‘ ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں ‘ یہ اسے سن رہے ہیں۔ تو آپ کے فرمانے کا مقصد یہ تھا کہ اب انہیں معلوم ہو گیا ہو گا کہ ان سے میں جو کچھ کہہ رہا تھا وہ حق تھا۔ پھر انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی «إنك لا تسمع الموتى»”آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔“ «وما أنت بمسمع من في القبور»”اور جو لوگ قبروں میں دفن ہو چکے ہیں انہیں آپ اپنی بات نہیں سنا سکتے۔“ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ (آپ ان مردوں کو نہیں سنا سکتے) جو اپنا ٹھکانا اب جہنم میں بنا چکے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3979]
مجھ سے عثمان نے بیان کیا ‘ ہم سے عبدہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کنویں پر کھڑے ہو کر فرمایا ”کیا جو کچھ تمہارے رب نے تمہارے لیے وعدہ کر رکھا تھا ‘ اسے تم نے سچا پا لیا؟“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ اب بھی اسے سن رہے ہیں۔“ اس حدیث کا ذکر جب عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ انہوں نے اب جان لیا ہو گا کہ جو کچھ میں نے ان سے کہا تھا وہ حق تھا۔ اس کے بعد انہوں نے آیت «إنك لا تسمع الوتى»”بیشک آپ ان مردوں کو نہیں سنا سکتے۔“ پوری پڑھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3980]
مجھ سے عثمان نے بیان کیا ‘ ہم سے عبدہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کنویں پر کھڑے ہو کر فرمایا ”کیا جو کچھ تمہارے رب نے تمہارے لیے وعدہ کر رکھا تھا ‘ اسے تم نے سچا پا لیا؟“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ اب بھی اسے سن رہے ہیں۔“ اس حدیث کا ذکر جب عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ انہوں نے اب جان لیا ہو گا کہ جو کچھ میں نے ان سے کہا تھا وہ حق تھا۔ اس کے بعد انہوں نے آیت «إنك لا تسمع الوتى»”بیشک آپ ان مردوں کو نہیں سنا سکتے۔“ پوری پڑھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3981]