ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے یوسف بن ماجشون سے یہ حدیث لکھی، انہوں نے صالح بن ابراہیم سے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے صالح کے دادا (عبدالرحمٰن بن عوفص) سے، بدر کے بارے میں عفراء کے دونوں بیٹوں کی حدیث مراد لیتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3964]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3964
حدیث حاشیہ: اس روایت کی تفصیل اس طرح ہے: حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ کہتے ہیں کہ میں غزوہ بدر کے دن صف میں کھڑا تھا، اچانک مڑا تو کیا دیکھتاہوں کہ میرے دائیں بائیں دونوں عمر جوان ہیں۔ میں دل میں تمنا کرنے لگا: کاش! میرے دائیں بائیں کڑیل جوان ہوتے۔ اتنے میں ایک نے اپنے ساتھی سے چھپ کر مجھے کہا: چچا جان! مجھے ابوجہل دکھائیں۔ میں نے کہا: بھتیجے!تم اسے کیا کروگے؟ اس نے کہا: مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگرمیں نے اسے دیکھ لیا تو میرا وجود اس کے وجود سے الگ نہیں ہوگا یہاں تک کہ جس کی موت پہلے لکھی وہ مرجائے۔ حضرت عبدالرحمان ؓ کہتے ہیں: مجھے اس کی دلیری پر تعجب ہوا۔ اتنے میں دوسرے شخص نے مجھے اشارے سے متوجہ ہوکر یہی بات کہی۔ میں نے چند لمحوں بعد دیکھا کہ ابوجہل لوگوں کے درمیان چکر لگارہا ہے۔ میں نے اسے دیکھتے ہی کہا: یہ ہے وہ ابوجہل جس کے متعلق تم مجھ سے ابھی ابھی پوچھ رہے تھے۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں اپنی تلواریں لیے جھپٹ پڑے اور اسے مار کرقتل کردیا، پھر پلٹ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کس نے قتل کیا ہے؟“ دونوں نے کہا میں نے قتل کیا ہےآپ نے فرمایا: ”تم اپنی اپنی تلواریں صاف کرچکے ہو؟“ بولے نہیں۔ آپ نے دونوں کی تلواریں دیکھ کر فرمایا: ”تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔ “ البتہ ابوجہل کا سازوسامان معاذ بن عمرو بن جموح کو دیا۔ دونوں حملہ آوروں کا نام معاذ بن عمرو بن جموح اور معاذ بن عفراء ہے۔ (صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3141)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3964