ہم سے حمیدی نے بیان کیا ‘ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ‘ ان سے عطاء نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ‘ قرآن مجید کی آیت «الذين بدلوا نعمة الله كفرا»(سورۃ ابراہیم 28) کے بارے میں آپ نے فرمایا اللہ کی قسم! یہ کفار قریش تھے۔ عمرو نے کہا کہ اس سے مراد قریش تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی نعمت تھے۔ کفار قریش نے اپنی قوم کو جنگ بدر کے دن «دار البوار» یعنی دوزخ میں جھونک دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 3977]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3977
حدیث حاشیہ: نعمت سے مراد اسلام اور رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس ہے۔ قریش نے اس نعمت کی قدر نہ کی جس کا نتیجہ تباہی اور ہلاکت کی شکل میں ہوا۔ مدینہ والوں نے اللہ کی اس نعمت کی قدر کی۔ دونوں جہان کی عزت وآبرو سے سرفراز ہوئے۔ رضي اللہ عنهم ورضوا عنه۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3977
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3977
حدیث حاشیہ: 1۔ آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ کی نعمت سے مراد دین اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے کفار قریش نے اس نعمت عظمیٰ کی قدر نی کی بلکہ اس کا انکار کردیا اور اپنی قوم کو جنھوں نے بدر جنگ میں ان کا ساتھ دیا تھا ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیا جبکہ اہل مدینہ نے اس نعمت کو اپنے سینے سے لگایا اللہ تعالیٰ نے انھیں دونوں جہانوں میں سر فراز فرمایا۔ 2۔ (دَارَالبَوَار) کی تفسیر راوی نے ان الفاظ میں کی ہے کہ اس سے مراد وہ آگ ہے جس میں وہ بدر کے دن داخل ہوئے کیونکہ جو انسان اس آگ میں داخل ہوگا اسے وہ ہلاک کردے گی۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3977