عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں تھے، تو مشرکوں نے ہمیں ظہر عصر، مغرب اور عشاء سے روکے رکھا، تو جب مشرکین بھاگ کھڑے ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا، تو اس نے نماز ظہر کے لیے اقامت کہی تو ہم نے ظہر پڑھی (پھر) اس نے عصر کے لیے اقامت کہی تو ہم نے عصر پڑھی، (پھر) اس نے مغرب کے لیے اقامت کہی تو ہم لوگوں نے مغرب پڑھی، پھر اس نے عشاء کے لیے اقامت کہی تو ہم نے عشاء پڑھی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف گھومے (اور) فرمایا: ”روئے زمین پر تمہارے علاوہ کوئی جماعت نہیں جو اللہ عزوجل کو یاد کر رہی ہو“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 623 (صحیح) (اس کے راوی ’’ابو الزبیر‘‘ مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں، اور ’’ابو عبیدہ‘‘ اور ان کے والد ’’ابن مسعود‘‘ کے درمیان سند میں انقطاع ہے، مگر شواہد سے تقویت پا کر صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، انظر الحديث السابق (623). والحديث السابق (662) يغني عنه. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 325
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 664
664 ۔ اردو حاشیہ: ➊ پیچھے گزر چکا ہے کہ بے وقت اذان سے چونکہ دوسرے لوگوں کو اشتباہ کا خطرہ ہو سکتا ہے، لہٰذا موقع محل کا لحاظ رکھا جائے، مثلاً: اگر کسی نماز کا وقت شروع ہوا ہے تو اذان کہہ کر فوت شدہ نمازیں اور وقتی نماز پڑھ لی جائے جیسا کہ حدیث: 663 میں ہے اور اگر کسی نماز کا وقت نہیں رہا، وقت قریب الاختتام ہے تو فوت شدہ نمازیں پہلے پڑھ لی جائیں، پھر وقتی نماز کے لیے اذان کہہ لی جائے جیسا کہ حدیث: 662 میں ہے اور اگر سب ہی قضا ہیں اور کسی نماز کا وقت نہیں تو پھر سب کے لیے صرف اقامت ہی کہہ لی جائے، جیسے حدیث: 664 میں ہے اور اگر صحرا ہے، کسی کے لیے اشتباہ کا خطرہ ممکن نہیں تو کوئی بھی وقت ہو، اذان کہہ کر فوت شدہ نماز پڑھ لی جائے جیسا کہ حدیث: 622 وغیرہ میں ہے۔ واللہ أعلم۔ ➋ صحیح بخاری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صرف عصر کی نماز فوت ہونے کا ذکر ہے۔ [صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4111] وہ الگ واقعہ ہو گا کیونکہ جنگ خندق کئی دن ہوتی رہی۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 664