(مرفوع) اخبرنا هناد، عن هشيم، عن ابي الزبير، عن نافع بن جبير، عن ابي عبيدة، قال: قال عبد الله: إن المشركين شغلوا النبي صلى الله عليه وسلم عن اربع صلوات يوم الخندق، فامر بلالا" فاذن ثم اقام فصلى الظهر، ثم اقام فصلى العصر، ثم اقام فصلى المغرب، ثم اقام فصلى العشاء". (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادٌ، عَنْ هُشَيْمٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، قال: قال عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ، فَأَمَرَ بِلَالًا" فَأَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جنگ خندق (احزاب) کے دن مشرکین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار نمازوں سے روکے رکھا، چنانچہ آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے اذان دی، پھر اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھی، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھی، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ نے مغرب پڑھی، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ نے عشاء پڑھی۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 623 (صحیح) (پچھلی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ’’ابو عبیدہ‘‘ کا اپنے والد ابن مسعود سے سماع نہیں ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، انظر الحديث السابق (623). والحديث السابق (662) يغني عنه. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 325
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 663
663 ۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ روایت اگرچہ انقطاع کی وجہ سے سنداً ضعیف ہے لیکن دیگر شواہد کی بنا پر درست ہے کیونکہ یہ مفہوم اور واقعہ دیگر صحیح احادیث میں موجود ہے۔ ➋ اصل میں ظہر اور عصر کی نمازیں فوت ہوئی تھیں۔ مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ اذان کہلائی گئی۔ تینوں نمازیں پڑھی گئیں۔ ظہر اور عصر تو قضا تھیں مگر مغرب وقت کے آخر میں پڑھی گئی۔ اتنے میں عشاء کا وقت ہو گیا تو ساتھ ہی وہ بھی پڑھ لی گئی۔ گویا ادائیگی کے لحاظ سے چار اکٹھی تھیں ورنہ حقیقتاً مغرب اور عشاء اپنے اپنے وقت میں تھیں۔ ادائیگی کو دیکھتے ہوئے راوی نے چار نمازوں سے روکے جانے کا ذکر کر دیا۔ جنگ تو مغرب کے وقت بند ہو گئی تھی۔ اگر کچھ دیر بھی ہو گئی تو عشاء کی نماز کے فوت ہونے کا تو امکان ہی نہیں۔ سابقہ روایت میں اس کی صراحت ہے۔ اگر الگ الگ واقعہ ہو تو دوسری بات ہے اور یہی بات صحیح ہے کیونکہ دیگر روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ دیکھیے فوائد و مسائل حدیث: 664۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 663