(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا ابن ابي ذئب، قال: حدثنا سعيد بن ابي سعيد، عن عبد الرحمن بن ابي سعيد، عن ابيه، قال: شغلنا المشركون يوم الخندق عن صلاة الظهر حتى غربت الشمس، وذلك قبل ان ينزل في القتال ما نزل، فانزل الله عز وجل وكفى الله المؤمنين القتال سورة الاحزاب آية 25،" فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم بلالا، فاقام لصلاة الظهر فصلاها كما كان يصليها لوقتها، ثم اقام للعصر فصلاها كما كان يصليها لوقتها، ثم اذن للمغرب فصلاها كما كان يصليها لوقتها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، قال: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: شَغَلَنَا الْمُشْرِكُونَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ عَنْ صَلَاةِ الظُّهْرِ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ فِي الْقِتَالِ مَا نَزَلَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ سورة الأحزاب آية 25،" فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَالًا، فَأَقَامَ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ فَصَلَّاهَا كَمَا كَانَ يُصَلِّيهَا لِوَقْتِهَا، ثُمَّ أَقَامَ لِلْعَصْرِ فَصَلَّاهَا كَمَا كَانَ يُصَلِّيهَا لِوَقْتِهَا، ثُمَّ أَذَّنَ لِلْمَغْرِبِ فَصَلَّاهَا كَمَا كَانَ يُصَلِّيهَا لِوَقْتِهَا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مشرکین نے غزوہ خندق (غزوہ احزاب) کے دن ہمیں ظہر سے روکے رکھا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا، (یہ (واقعہ) قتال کے سلسلہ میں جو (آیتیں) اتری ہیں ان کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے) چنانچہ اللہ عزوجل نے «وكفى اللہ المؤمنين القتال»”اور اس جنگ میں اللہ تعالیٰ خود ہی مؤمنوں کو کافی ہو گیا“(الاحزاب: ۲۵) نازل فرمائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے ظہر کی نماز کی اقامت کہی تو آپ نے اسے ویسے ہی ادا کیا جیسے آپ اسے اس کے وقت پر ادا کرتے تھے، پھر انہوں نے عصر کی اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ویسے ہی ادا کیا جیسے آپ اسے اس کے وقت پر پڑھا کرتے تھے، پھر انہوں نے مغرب کی اذان دی تو آپ نے ویسے ہی ادا کیا، جیسے آپ اسے اس کے وقت پر پڑھا کرتے تھے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 662
662 ۔ اردو حاشیہ: ➊ معلوم ہوا کہ فوت شدہ نماز صرف اقامت سے ادا کی جائے گی اور وقتی نماز کے لیے اذان کہی جائے گی تاکہ لوگوں کو اشتباہ نہ ہو کیونکہ آپ شہر اور آبادی میں تھے۔ جب صحرا میں صبح کی نماز فوت ہوئی تھی تو آپ نے اذان کہلوا کر نماز پڑھی تھی کیونکہ وہاں اشتباہ کا خطرہ نہ تھا۔ گویا فوت شدہ نماز کے لیے اذان نہ تو ضروری ہے اور نہ منع ہے، موقع محل دیکھاجائے گا۔ مزید دیکھیے حدیث: 622۔ ➋ السنن الکبریٰ للنسائي: (505/1) میں تبویب یوں ہے: «الأذان للفوائت من الصلوات» اس عنوان سے واضح ہوتا ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ کا استدلال بھی واضح ہے۔ لیکن ایسا لگتا نہیں کیونکہ دیگر مختلف طرق میں أذن کی بجائے أقام کے الفاظ منقول ہیں۔ واللہ أعلم۔ مزید دیکھیے: [الإرواء: 257/1، و ذخیرة العقبیٰ، شرح سنن النسائي للاتبوبي: 99/8]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 662