الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6243
6243. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی بات سے زیادہ صغیرہ گناہوں سے ملتی جلتی چیز کوئی نہیں دیکھی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: میں نے اس حدیث سے زیادہ چھوٹے گناہوں سے مشابہ کوئی چیز نہیں دیکھی جسے ابو ہریرہ ؓ نے نبی ﷺ سے بیان کیا ہے ”اللہ تعالٰی نے ابن آدم پر اس کے زنا کا حصہ رکھا ہے جس سے وہ لا محالہ دو چار ہوگا۔ (وہ یہ ہے کہ) آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور دل اسکی خواہش اور تمنا کرتا ہے پھر شرمگاہ اس خواہش کو سچا کر دکھاتی ہے یا اسے جھٹلا دیتی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6243]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ''اللَّمَمَ'' کے متعلق سوال ہوا جو قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں آیا ہے:
”وہ لوگ جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں سوائے ان گناہوں کے جو صغیرہ ہیں۔
“ (النجم53: 32)
انہوں نے اس کے جواب میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کر دی جس میں زنا جیسے بڑے گناہ کی مبادیات (ابتدائی باتوں)
کا ذکر ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ''لَّمَمَ'' نظر بازی، بات کرنا اور بدکاری کی خواہش کا پیدا ہونا ہے۔
یہ بدکاری کی مبادیات ہیں۔
آخرکار شرمگاہ اس کے ارتکاب کرنے یا چھوڑ دینے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
(2)
اللہ تعالیٰ نے ازل میں انسان کے لیے جو گناہ لکھ دیا ہے وہ اس سے خلاصی نہیں پا سکتا، البتہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے مبادیاتِ زنا کو ''لَّمَمَ'' اور صغیرہ گناہ بنا دیا ہے۔
جب تک شرمگاہ اس کی تصدیق نہ کرے انسان سے اس کے متعلق باز پرس نہ ہو گی اور جب شرمگاہ اس کی تصدیق کر دے تو تمام صغیرہ گناہ اور مبادیات کبیرہ گناہ کی شکل اختیار کر لیں گے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں اس حکمت کی طرف اشارہ ہے جس کی بنا پر گھروں میں اجازت کے بغیر تاک جھانک کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
اس سے گزشتہ عنوان کے ساتھ مناسبت بھی ظاہر ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 32/11)
واللہ أعلم۔
(3)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دل میں زنا کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔
اس خواہش کی تکمیل کے لیے انسان نظر بازی اور محبت بھری گفتگو بھی کرتا ہے، اب اگر شرمگاہ نے عملاً زنا کر لیا تو بدکاری کا گناہ لکھا جائے گا اور اگر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کے ارتکاب سے باز رہا تو خواہش غلط اور جھوٹ ہو گئی، اس صورت میں گناہ نہیں لکھا جائے گا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6243
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6612
6612. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں تو لمم کے مشابہ اس بات سے زیادہ کوئی اور بات نہیں جانتا جو حضرت ابو ہریرہ ؓ نے نبی ﷺ سے بیان کی ہے: ”اللہ تعالٰی نے انسان کے زنا کا کوئی نہ کوئی حصہ لکھ دیا ہے جس سے لا محالہ اسے دو چار ہونا پڑے گا۔ آنکھ کا زنا نظر بازی ہے۔ زبان کا گناہ لوچ دار گفتگو کرنا ہے۔ اور دل کا زنا خواہشات اور شہوات ہیں، پھر شرمگاہ اس کی تصدیق کر دیتی ہے اور اسے جھٹلا دیتی ہے۔“ شبابہ نے کہا: ہم سے ورقاء نے بیان کیا: ابن طاؤس سے انہوں نے اپنے باپ طاؤس سے انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے انہوں نے نبی ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6612]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد اس حقیقت کو بیان کرنا ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ قضا و قدر کے فولادی شکنجے میں کسا ہوا ہے۔
جو کچھ تقدیر میں لکھا ہوا ہے وہ بہر صورت ہو کر رہے گا، چنانچہ آیت کریمہ میں ہے:
جب کسی قوم کے اعمال و کردار کے پیش نظر یقین ہو جاتا ہے اور ان پر لازم ہو جاتا ہے کہ اب وہ رجوع نہیں کریں گے تب اللہ تعالیٰ ان پر اپنے عذاب کا کوڑا برساتا ہے۔
(الأنبیاء: 95/21)
اسی طرح قوم نوح کے متعلق بھی تقدیر کا لکھا ہوا غالب آیا۔
مہلت کے باوجود وہ ایمان لانے والے نہیں تھے، اس لیے انہیں بھی تباہی سے دوچار ہونا پڑا۔
(2)
حدیث سے بھی تقدیر کے دائرے کی وسعت کا پتا چلتا ہے کہ اس میں صرف حسنات اور سیئات ہی نہیں بلکہ ان کے مقدمات بھی لکھ دیے گئے ہیں۔
انسان یہ سمجھتا ہے کہ جب اس نے عملی طور پر زنا نہیں کیا تو شاید اس سے پہلے جو خرافات اس سے سرزد ہوئی ہوئی ہیں وہ نہ ہونے کے برابر ہیں، اس لیے وہ شاید محاسبۂ تقدیر میں داخل نہ ہوں لیکن اس مشت خاک کو یقین رکھنا چاہیے کہ وہ بھی مقدرات میں شامل ہیں پھر تقدیر کی گرفت بھی کتنی زبردست ہے کہ جو حصہ زنا ہوتا بھی انسان کے اختیار و ارادے سے۔
(3)
چونکہ زانی کا سارا جسم اس جرم میں شریک ہوتا ہے، اس لیے اس کی سزا بھی ہر ہر عضو کو بھگتنا پڑتی ہے، شاید جنابت میں تمام جسم کا غسل بھی اسی لیے فرض قرار دیا گیا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6612