(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن عقيل، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم شرب لبنا، فدعا بماء، فمضمض، وقال: " إن له دسما ". قال: وفي الباب عن سهل بن سعد الساعدي، وام سلمة. قال ابو عيسى: وهذا حسن صحيح، وقد راى بعض اهل العلم المضمضة من اللبن، وهذا عندنا على الاستحباب، ولم ير بعضهم المضمضة من اللبن.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَرِبَ لَبَنًا، فَدَعَا بِمَاءٍ، فَمَضْمَضَ، وَقَالَ: " إِنَّ لَهُ دَسَمًا ". قال: وَفِي الْبَاب عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمَضْمَضَةَ مِنَ اللَّبَنِ، وَهَذَا عِنْدَنَا عَلَى الِاسْتِحْبَابِ، وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمُ الْمَضْمَضَةَ مِنَ اللَّبَنِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دودھ پیا تو پانی منگوا کر کلی کی اور فرمایا: ”اس میں چکنائی ہوتی ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سہل بن سعد ساعدی، اور ام سلمہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کی رائے ہے کہ کلی دودھ پینے سے ہے، اور یہ حکم ہمارے نزدیک مستحب ۱؎ ہے۔
وضاحت: ۱؎: بعض لوگوں نے اسے واجب کہا ہے، ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ ابن ماجہ کی ایک روایت (رقم ۴۹۸) میں «مضمضوا من اللبن» امر کے صیغے کے ساتھ آیا ہے اور امر میں اصل وجوب ہے، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ اس صورت میں ہے جب استحباب پر محمول کرنے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو اور یہاں استحباب پر محمول کئے جانے کی دلیل موجود ہے کیونکہ ابوداؤد نے (برقم ۱۹۶) انس سے ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دودھ پیا تو نہ کلی کی اور نہ وضو ہی کیا، اس کی سند حسن ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 89
اردو حاشہ: 1؎: بعض لوگوں نے اسے واجب کہا ہے، ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ ابن ماجہ کی ایک روایت (رقم 498) میں ((مَضْمَضُوا مِنَ الِّلبَنِ)) امر کے صیغے کے ساتھ آیا ہے اور امر میں اصل وجوب ہے، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ اس صور ت میں ہے جب استحباب پر محمول کرنے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو اور یہاں استحباب پر محمول کئے جانے کی دلیل موجود ہے کیونکہ ابوداود نے (برقم 196) انس سے ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دودھ پیا تو نہ کلی کی اور نہ وضو ہی کیا، اس کی سند حسن ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 89
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 196
´چکنائی والی چیز کھا پی کر وضو` «. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَرِبَ لَبَنًا فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَمَضْمَضَ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ لَهُ دَسَمًا . . .» ”. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا، پھر پانی منگا کر کلی کی اور فرمایا: ”اس میں چکنائی ہوتی ہے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 196]
فوائد و مسائل: اس قسم کے ماکولات و مشروبات سے جن میں چکنائی ہو، کلی کر لینا اولیٰ و افضل ہے تاکہ نماز کے دوران میں منہ خوب صاف رہے۔ آنے والی حدیث میں اس کی رخصت کا بیان ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 196
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 187
´دودھ پی کر کلی کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا، پھر پانی مانگا اور کلی کی، پھر فرمایا: ”اس میں چکنائی ہوتی ہے۔“[سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 187]
187۔ اردو حاشیہ: دودھ کے اثرات خصوصاً چکناہٹ اور مٹھاس منہ میں ہر جاتے ہیں، لہٰذا دودھ پینے کے بعد کلی کرنا مستحب ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 187
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث498
´دودھ پی کر کلی کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دودھ پی کر کلی کر لیا کرو کیونکہ اس میں چکناہٹ ہوتی ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 498]
اردو حاشہ: (1) کلی کے حکم کی جو وجہ بیان کی گئی ہےاس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مقصد منہ کی صفائی ہے اور اس کا وضو کے رہنے یا ٹوٹنے سے تعلق نہیں۔
(2) اسلام میں صفائی کی بہت اہمیت ہے اس لیے وضو میں بھی کلی اور مسواک کو مشروع کیا گیا ہے۔ کھانے پینے کے بعد منہ میں چکناہٹ کا باقی رہنا حفظان صحت کے اصول کے منافی ہے اس لیے دودھ پی کر یا کوئی مرغن غذا کھا کرمنہ کی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 498
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:211
211. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ دودھ نوش فرمایا تو کلی کی اور فرمایا: ”اس (دودھ) میں چکناہٹ ہوتی ہے۔“ زہری سے بیان کرنے میں یونس اور صالح بن کیسان نے عقیل کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:211]
حدیث حاشیہ: 1۔ دودھ تازہ ہو یا گرم اس میں چکناہٹ ہوتی ہے۔ اس کے استعمال کے بعد زبان بھی چکناہٹ آلود ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے قراءت قرآن میں تکلف ہو نے لگتا ہے، اس لیے دودھ کے استعمال کے بعد کلی کرنی چاہیے۔ بعض روایات میں دودھ پینے کے بعد وضو کرنے کا حکم ہے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 498) یہ امر وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے طور پر ہے، کیونکہ اس روایت کو بیان کرنے والے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اگر میں دودھ پینے کے بعد کلی نہ کروں تو بھی کچھ پروا نہیں۔ اس کےعلاوہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دودھ نوش فرمایا، اس کے بعد نہ تو کلی کی اور نہ وضو ہی فرمایا، بلکہ اس کے بعد آپ نے نماز ادا فرمائی۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 197) بعض حضرات نے حدیث انس کو حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کے لیے ناسخ ٹھہرایا ہے، حالانکہ یہ موقف صحیح نہیں، کیونکہ کلی کے واجب ہونے کا کوئی بھی قائل نہیں کہ اس میں ناسخ و منسوخ کا مسئلہ ہو۔ (فتح الباري: 409/1) مقصد یہ ہے کہ اگر دودھ پینے کے فوراً بعد نماز کی ضرورت ہو تو کلی کر لینی چاہیے، اگر کچھ دیر کے بعد لعاب دہن کی وجہ سے یا ازخود منہ صاف ہو جائے تو پھر کلی کی بھی ضرورت نہیں، کیونکہ کلی سے مقصود چکناہٹ کو دور کرنا ہے، اگر وہ خود بخود لعاب دہن سے دور ہو جائے تو کلی کی ضرورت نہیں۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں متابعت کا ذکر فرمایا ہے۔ یونس بن یزید کی متابعت صحیح مسلم (حدیث 358) میں موصولاًبیان ہوئی ہے، جبکہ صالح بن کیسان کی روایت کو ابو العباس السراج نے اپنی مسند میں باسند بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی عقیل کی متابعت کی ہے جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود کتاب الاطعمہ میں ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري: 409/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 211
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 47
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پی کر کُلّی کی اور فرمایا: ”اس میں چکنائی ہوتی ہے۔“ صنعانی کی روایت میں ہے یا ”وہ چکنا ہوتا ہے“ بندار کی روایت میں ہے ”وہ چکنا ہے۔“[صحيح ابن خزيمه ح: 47]
فوائد:
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: احادیث دلیل ہیں کہ دودھ پی کر کلی کرنا مستحب عمل ہے۔ علماء بیان کرتے ہیں کہ اسی طرح ماکول و مشروب کے استعمال کے بعد بھی کلی کرنا مستحب فعل ہے، تا کہ کوئی چیز دانتوں میں یا منہ میں لگی نہ رہے، جسے وہ نماز میں چباتا رہے، نیز اس لیے بھی کلی کرنا مستحب ہے کہ کھانے پینے کی چکناہٹ وغیرہ ختم ہو جائے اور منہ صاف ہو جائے۔ [نووي: 45/4]
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 47