(مرفوع) حدثنا محمد بن حميد الرازي، حدثنا سلمة بن الفضل، عن محمد بن إسحاق، عن حميد، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يتوضا لكل صلاة طاهرا او غير طاهر " , قال: قلت لانس: فكيف كنتم تصنعون انتم؟ قال: كنا نتوضا وضوءا واحدا. قال ابو عيسى: وحديث حميد، عن انس، حسن غريب هذا الوجه، والمشهور عند اهل الحديث حديث عمرو بن عامر الانصاري، عن انس، وقد كان بعض اهل العلم يرى الوضوء لكل صلاة استحبابا لا على الوجوب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ طَاهِرًا أَوْ غَيْرَ طَاهِرٍ " , قال: قُلْتُ لِأَنَسٍ: فَكَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ أَنْتُمْ؟ قَالَ: كُنَّا نَتَوَضَّأُ وُضُوءًا وَاحِدًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْمَشْهُورُ عَنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، وَقَدْ كَانَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَى الْوُضُوءَ لِكُلِّ صَلَاةٍ اسْتِحْبَابًا لَا عَلَى الْوُجُوبِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے باوضو ہوتے یا بے وضو۔ حمید کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی الله عنہ سے پوچھا: آپ لوگ کیسے کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم ایک ہی وضو کرتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حمید کی حدیث بواسطہ انس اس سند سے غریب ہے، اور محدثین کے نزدیک مشہور عمرو بن عامر والی حدیث ہے جو بواسطہ انس مروی ہے، اور بعض اہل علم ۲؎ کی رائے ہے کہ ہر نماز کے لیے وضو مستحب ہے نہ کہ واجب۔
وضاحت: ۱؎: ایک ہی وضو سے کئی کئی نمازیں پڑھتے تھے۔
۲؎: بلکہ اکثر اہل علم کی یہی رائے ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 740) (ضعیف) (محمد بن حمید رازی ضعیف ہیں اور محمد بن اسحاق مدلس، اور روایت ”عنعنہ“ سے ہے، لیکن متابعت جو حدیث: 60 پر آ رہی ہے کی وجہ سے اصل حدیث صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف صحيح أبى داود تحت الحديث (163)
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف محمد بن حميد بن حيان الرازي ضعيف ضعفه الجمهور ... وابن إسحاق مدلس (... د292) وعنعن إن صح السند إليه والحديث الاتي (الأصل: 60) يغني عنه .
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 131
´ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنے کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چھوٹا سا برتن لایا گیا، تو آپ نے (اس سے) وضو کیا، عمرو بن عامر کہتے ہیں: میں نے پوچھا: کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں ۱؎! اس پر (عمرو بن عامر) نے پوچھا: اور آپ لوگ؟ کہا: ہم لوگ جب تک وضو نہیں توڑتے نماز پڑھتے رہتے تھے، نیز کہا: ہم لوگ کئی نمازیں ایک ہی وضو سے پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 131]
131۔ اردو حاشیہ: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمیشہ ہر نماز کے لیے نیا وضو نہیں فرمایا کرتے تھے۔ کبھی کبھی آپ سے ایک وضو کے ساتھ زیادہ نمازیں پڑھنا بھی مذکور ہے جیسا کہ آئندہ احادیث میں ہے، یعنی عموماً آپ ثواب اور صفائی کی خاطر وضو فرما لیا کرتے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 131