حدثنا إبراهيم بن عبد الله بن المنذر الباهلي، حدثنا يعلى بن عبيد قال لنا سفيان الثوري: اتقوا الكلبي، فقيل له: فإنك تروي عنه؟! قال: انا اعرف صدقه من كذبه.حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُنْذِرِ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ قَالَ لَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: اتَّقُوا الْكَلْبِيَّ، فَقِيلَ لَهُ: فَإِنَّكَ تَرْوِي عَنْهُ؟! قَالَ: أَنَا أَعْرِفُ صِدْقَهُ مِنْ كَذِبِهِ.
یعلیٰ بن عبید کہتے ہیں: ہم سے سفیان ثوری نے کہا: کلبی سے اجتناب کرو، ان سے کہا گیا کہ آپ تو اس سے روایت کرتے ہیں، کہا: مجھے اس کے سچ اور جھوٹ کی تمیز ہے۔
قال: و اخبرني محمد بن إسماعيل، حدثني يحيى بن معين، حدثنا عفان، عن ابي عوانة، قال: لما مات الحسن البصري اشتهيت كلامه؛ فتتبعته عن اصحاب الحسن؛ فاتيت به ابان بن ابي عياش؛ فقراه علي كله عن الحسن فما استحل ان اروي عنه شيئا.قَالَ: و أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ اشْتَهَيْتُ كَلَامَهُ؛ فَتَتَبَّعْتُهُ عَنْ أَصْحَابِ الْحَسَنِ؛ فَأَتَيْتُ بِهِ أَبَانَ بْنَ أَبِي عَيَّاشٍ؛ فَقَرَأَهُ عَلَيَّ كُلَّهُ عَنْ الْحَسَنِ فَمَا أَسْتَحِلُّ أَنْ أَرْوِيَ عَنْهُ شَيْئًا.
ابوعوانہ کہتے ہیں: جب حسن بصری کا انتقال ہو گیا تو مجھے ان کے اقوال جاننے کی خواہش ہوئی، میں نے اصحاب حسن بصری کی تلاش کی، ابان بن ابی عیاش کے پاس آیا تو اس نے ہم پر احادیث پڑھیں سب کی سب حسن بصری سے تھیں، میں ان میں سے کچھ بھی روایت کرنا حلال نہیں سمجھتا۔
قال ابو عيسى: قد روى عن ابان بن ابي عياش غير واحد من الائمة، وإن كان فيه من الضعف والغفلة ما وصفه ابو عوانة وغيره فلا يغتر برواية الثقات عن الناس لانه يروى عن ابن سيرين انه قال: إن الرجل يحدثني فما اتهمه، ولكن اتهم من فوقه.قَالَ أَبُو عِيسَى: قَدْ رَوَى عَنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ، وَإِنْ كَانَ فِيهِ مِنْ الضَّعْفِ وَالْغَفْلَةِ مَا وَصَفَهُ أَبُو عَوَانَةَ وَغَيْرُهُ فَلا يُغْتَرُّ بِرِوَايَةِ الثِّقَاتِ عَنْ النَّاسِ لأَنَّهُ يُرْوَى عَنْ ابْنِ سِيرِينَ أنَّه قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ يُحَدِّثُنِي فَمَا أَتَّهِمُهُ، وَلَكِنْ أَتَّهِمُ مَنْ فَوْقَهُ.
امام ترمذی کہتے ہیں: ابان بن ابی عیاش سے غفلت اور ضعف کے باوجود کئی ائمہ نے روایت کی ہے، جیسا کہ ابوعوانہ وغیرہ نے کہا ہے، پس اگر ثقات لوگوں سے روایت کریں تو اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے اس لیے کہ ابن سیرین سے مروی ہے کہ آدمی مجھ سے حدیث بیان کرتا ہے، تو میں اسے متہم نہیں کرتا، بلکہ اس سے اوپر کے راوی کو متہم کرتا ہوں۔
وقد روى غير واحد عن إبراهيم النخعي، عن علقمة، عن عبد الله بن مسعود ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يقنت في وتره قبل الركوع.وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْنُتُ فِي وِتْرِهِ قَبْلَ الرُّكُوعِ.
کئی لوگوں سے سے روایت ہے کہ ابراہیم نخعی علقمہ سے روایت کرتے ہیں اور علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پہلے وتر میں قنوت پڑھتے تھے۔
وروى ابان بن ابي عياش، عن إبراهيم النخعي، عن علقمة، عن عبد الله بن مسعود ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يقنت في وتره قبل الركوع. هكذا روى سفيان الثوري عن ابان بن ابي عياش.وَرَوَى أَبَانُ بْنُ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْنُتُ فِي وِتْرِهِ قَبْلَ الرُّكُوعِ. هَكَذَا رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ.
اور ابان ابن ابی عیاش سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پہلے وتر میں قنوت پڑھتے تھے، سفیان ثوری نے ابان بن ابی عیاش سے ایسے ہی روایت کی ہے۔
قال ابو عيسى: وابان بن ابي عياش، وإن كان قد وصف بالعبادة والاجتهاد؛ فهذه حاله في الحديث؛ والقوم كانوا اصحاب حفظ فرب رجل وإن كان صالحا لا يقيم الشهادة، ولا يحفظها؛ فكل من كان متهما في الحديث بالكذب او كان مغفلا يخطئ الكثير؛ فالذي اختاره اكثر اهل الحديث من الائمة ان لا يشتغل بالرواية عنه، الا ترى ان عبد الله بن المبارك حدث عن قوم من اهل العلم؛ فلما تبين له امرهم ترك الرواية عنهم.قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبَانُ بْنُ أَبِي عَيَّاشٍ، وَإِنْ كَانَ قَدْ وُصِفَ بِالْعِبَادَةِ وَالاجْتِهَادِ؛ فَهَذِهِ حَالُهُ فِي الْحَدِيثِ؛ وَالْقَوْمُ كَانُوا أَصْحَابَ حِفْظٍ فَرُبَّ رَجُلٍ وَإِنْ كَانَ صَالِحًا لا يُقِيمُ الشَّهَادَةَ، وَلا يَحْفَظُهَا؛ فَكُلُّ مَنْ كَانَ مُتَّهَمًا فِي الْحَدِيثِ بِالْكَذِبِ أَوْ كَانَ مُغَفَّلا يُخْطِئُ الْكَثِيرَ؛ فَالَّذِي اخْتَارَهُ أَكْثَرُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِنْ الأَئِمَّةِ أَنْ لا يُشْتَغَلَ بِالرِّوَايَةِ عَنْهُ، أَلا تَرَى أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ حَدَّثَ عَنْ قَوْمٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ؛ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَمْرُهُمْ تَرَكَ الرِّوَايَةَ عَنْهُمْ.
ترمذی کہتے ہیں: ابان بن ابی عیاش اگرچہ عبادت اور زہد و ریاضت کے وصف سے متصف ہیں، لیکن حدیث میں ان کا یہ حال ہے اور محدثین کی جماعت حفظ والی تھی، تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی نیک اور صالح ہوتا ہے، لیکن نہ وہ شہادت دے سکتا ہے، اور نہ اسے یاد رکھتا ہے تو ہر متہم بالکذب راوی یا مغفل راوی جو کثرت سے غلطیاں کرتا ہے، اہل حدیث کی اکثریت کے مختار مذہب میں ایسے راویوں سے حدیث نہیں روایت کی جائے گی۔ کیا یہ نہیں دیکھتے ہو کہ عبداللہ بن المبارک نے اہل علم کی ایک جماعت سے حدیث روایت کی تھی لیکن ان کے حالات کے واضح ہونے جانے پر ان سے روایت ترک کر دی۔
اخبرني موسى بن حزام قال: سمعت صالح بن عبدالله يقول: كنا عند ابي مقاتل السمرقندي؛ فجعل يروي عن عون بن ابي شداد الاحاديث الطوال التي كان يروي في وصية لقمان، وقتل سعيد بن جبير وما اشبه هذه الاحاديث؛ فقال له ابن اخي ابي مقاتل: يا عم! لا تقل: حدثنا عون؛ فإنك لم تسمع هذه الاشيائ. قال: يا بني! هو كلام حسن.أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ حِزَامٍ قَال: سَمِعْتُ صَالِحَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُقَاتِلٍ السَّمَرْقَنْدِيِّ؛ فَجَعَلَ يَرْوِي عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي شَدَّادٍ الأَحَادِيثَ الطِّوَالَ الَّتِي كَانَ يَرْوِي فِي وَصِيَّةِ لُقْمَانَ، وَقَتْلِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَمَا أَشْبَهَ هَذِهِ الأَحَادِيثَ؛ فَقَالَ لَهُ ابْنُ أَخٍي أَبِي مُقَاتِلٍ: يَا عَمِّ! لا تَقُلْ: حَدَّثَنَا عَوْنٌ؛ فَإِنَّكَ لَمْ تَسْمَعْ هَذِهِ الأَشْيَائَ. قَالَ: يَا بُنَيَّ! هُوَ كَلامٌ حَسَنٌ.
صالح بن عبداللہ ترمذی کہتے ہیں: ہم ابومقاتل سمرقندی کے پاس تھے، تو وہ لقمان کی وصیت، اور سعید بن جبیر کے قتل سے متعلق لمبی لمبی احادیث اور اس طرح کی چیزیں عون بن ابی شداد سے روایت کرنے لگے، ابومقاتل کے بھتیجے نے ان سے کہا: چچا! یہ نہ کہیں کہ ہم سے عون نے حدیث بیان کی ہے، کیونکہ واقعہ یہ ہے آپ نے ان سے کچھ بھی نہیں سنا ہے، کہا: بیٹے! یہ اچھا کلام ہے۔
وسمعت الجارود يقول: كنا عند ابي معاوية فذكر له حديث ابي مقاتل، عن سفيان الثوري، عن الاعمش، عن ابي ظبيان، قال: سئل علي عن كور الزنابير، قال: لا باس به هو بمنزلة صيد البحر. فقال ابو معاوية: ما اقول: إن صاحبكم كذاب، ولكن هذا الحديث كذب.وسمعتُ الجارودَ يقولُ: كنَّا عندَ أبي معاويةَ فذُكِرَ له حديث أبي مقاتلٍ، عن سفيانَ الثوريِّ، عن الأعمشِ، عن أبي ظبيانَ، قالَ: سُئلَ علي عن كور الزنابيرِ، قالَ: لا بأسَ به هو بمنزلةِ صيدِ البحرِ. فقال أبو معاوية: ما أقولُ: إن صاحبَكم كذاب، ولكن هذا الحديث كذبٌ.
ترمذی کہتے ہیں: میں نے جارود کو کہتے سنا: ہم ابومعاویہ کے پاس تھے تو ان سے ابومقاتل کی حدیث کا ذکر کیا گیا کہ ابومقاتل نے سفیان ثوری سے روایت کی ہے اور ثوری نے اعمش سے اور اعمش نے ابوظبیان سے، ابوظبیان کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ سے بھڑوں کے چھتے کے بارے میں سوال گیا تو آپ نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ سمندری شکار کی طرح ہے، ابومعاویہ نے کہا: میں یہ نہیں کہوں گا کہ تمہارے ساتھی (یعنی ابومقاتل) کذاب ہیں، لیکن یہ حدیث جھوٹ ہے۔
وقد تكلم بعض اهل الحديث في قوم من اجلة اهل العلم، وضعفوهم من قبل حفظهم، ووثقهم آخرون من الائمة لجلالتهم وصدقهم وإن كانوا قد وهموا في بعض ما رووا.وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي قَوْمٍ مِنْ أَجِلَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَضَعَّفُوهُمْ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِمْ، وَوَثَّقَهُمْ آخَرُونَ مِنْ الأَئِمَّةِ لجَلالَتِهِمْ وَصِدْقِهِمْ وَإِنْ كَانُوا قَدْ وَهِمُوا فِي بَعْضِ مَا رَوَوْا.
بعض اہل حدیث نے جلیل القدر اہل علم کی ایک جماعت پر جرح کی، حافظہ کی خرابی کی وجہ سے ان کو ضعیف قرار دیا، جب کہ دوسرے ائمہ نے ان کے صدق اور جلالت شان کی وجہ سے ان کی توثیق کی گرچہ ان کی بعض روایات میں اوہام ہیں۔
وقد تكلم يحيى بن سعيد القطان في محمد بن عمرو، ثم روى عنه.وقَدْ تَكَلَّمَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ فِي مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، ثُمَّ رَوَى عَنْهُ.
یحیی بن سعید القطان نے محمد بن عمرو پر کلام کیا، پھر ان سے روایت کی۔
حدثنا ابو بكر عبد القدوس بن محمد العطار البصري، حدثنا علي بن المديني قال: سالت يحيى بن سعيد، عن محمد بن عمرو بن علقمة، قال: تريد العفو او تشدد. فقال: لا، بل اشدد قال: ليس هو ممن تريد، كان يقول: اشياخنا ابو سلمة ويحيى بن عبدالرحمن بن حاطب.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ: سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ، قَالَ: تُرِيدُ الْعَفْوَ أَوْ تُشَدِّدُ. فَقَالَ: لا، بَلْ أُشَدِّدُ قَالَ: لَيْسَ هُوَ مِمَّنْ تُرِيدُ، كَانَ يَقُولُ: أَشْيَاخُنَا أَبُو سَلَمَةَ وَيَحْيَى بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ.
علی بن المدینی کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن سعید القطان سے محمد بن عمرو بن علقمہ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے کہا: کیا ان کے بارے میں عفو و درگزر پر مبنی رائے چاہتے ہو یا سخت بات؟ کہا: نہیں، سخت بات چاہتا ہوں؟ جواب دیا: وہ اس معیار کے نہیں جو تمہیں مطلوب ہے وہ روایت میں کہتے تھے: ہمارے مشائخ ابوسلمہ اور یحییٰ بن عبدالرحمٰن بن حاطب ہیں۔
قال يحيى: سالت مالك بن انس عن محمد بن عمرو فقال: فيه نحو ما قلت.قَالَ يَحْيَى: سَأَلْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو فَقَالَ: فِيهِ نَحْوَ مَا قُلْتُ.
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: میں نے مالک بن انس سے محمد بن عمرو کے بارے میں سوال کیا تو میرے قول کی طرح ان کے بارے میں مالک نے عرض کیا۔
قال علي: قال: يحيى: ومحمد بن عمرو اعلى من سهيل بن ابي صالح، وهو عندي فوق عبدالرحمن بن حرملة.قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ: يَحْيَى: وَمُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو أَعْلَى مِنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، وَهُوَ عِنْدِي فَوْقَ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ.
علی بن المدینی کہتے ہیں: یحییٰ بن سعیدالقطان کہتے ہیں: محمد بن عمرو، سہیل بن ابی صالح سے افضل ہیں، وہ میرے نزدیک عبدالرحمٰن بن حرملہ پر فوقیت رکھتے ہیں۔
قال علي: فقلت ليحيى: ما رايت من عبد الرحمن بن حرملة؟ قال: لو شئت ان القنه لفعلت. قلت: كان يلقن؟ قال: نعم.قَالَ عَلِيٌّ: فَقُلْتُ لِيَحْيَى: مَا رَأَيْتَ مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ؟ قَالَ: لَوْ شِئْتُ أَنْ أُلَقِّنَهُ لَفَعَلْتُ. قُلْتُ: كَانَ يُلَقَّنُ؟ قَالَ: نَعَمْ.
علی بن المدینی کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن سعید بن القطان سے پوچھا: عبدالرحمٰن بن حرملہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کہا: اگر میں ان کو تلقین کرنا چاہوں تو کر سکتا ہوں، میں نے کہا: کیا ان کو تلقین کی جاتی تھی؟ کہا: ہاں!۔
قال علي: ولم يرو يحيى عن شريك، ولا عن ابي بكر بن عياش، ولا عن الربيع بن صبيح، ولا عن المبارك بن فضالة.قَالَ عَلِيٌّ: وَلَمْ يَرْوِ يَحْيَى عَنْ شَرِيكٍ، وَلا عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، وَلا عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ صَبِيحٍ، وَلا عَنْ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ.
علی بن المدینی کہتے ہیں: یحییٰ بن سعید القطان نے تو نہ شریک سے روایت کی، نہ ابوبکر بن عیاش سے، نہ ربیع بن صبیح سے اور نہ ہی مبارک بن فضالہ سے۔
قال ابو عيسى: وإن كان يحيى بن سعيد القطان قد ترك الرواية عن هؤلائ؛ فلم يترك الرواية عنهم انه اتهمهم بالكذب، ولكنه تركهم لحال حفظهم. وذكر عن يحيى بن سعيد انه كان إذا راى الرجل يحدث عن حفظه مرة هكذا ومرة هكذا، لايثبت على رواية واحدة؛ تركه.قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنْ كَانَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ قَدْ تَرَكَ الرِّوَايَةَ عَنْ هَؤُلائِ؛ فَلَمْ يَتْرُكْ الرِّوَايَةَ عَنْهُمْ أَنَّهُ اتَّهَمَهُمْ بِالْكَذِبِ، وَلَكِنَّهُ تَرَكَهُمْ لِحَالِ حِفْظِهِمْ. وذُكِرَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَنَّهُ كَانَ إِذَا رَأَى الرَّجُلَ يُحَدِّثُ عَنْ حِفْظِهِ مَرَّةً هَكَذَا وَمَرَّةً هَكَذَا، لايَثْبُتُ عَلَى رِوَايَةٍ وَاحِدَةٍ؛ تَرَكَهُ.
ترمذی کہتے ہیں: یحییٰ بن سعید القطان نے گرچہ ان لوگوں سے حدیث کی روایت ترک کر دی تھی، لیکن ان کو کذب کے اتہام کی وجہ سے نہیں چھوڑا تھا، انہیں صرف ان کے حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے چھوڑا تھا۔
وقد حدث عن هؤلائ الذين تركهم يحيى بن سعيد القطان: عبد الله بن المبارك، ووكيع بن الجراح، وعبدالرحمن بن مهدي وغيرهم من الائمة.وَقَدْ حَدَّثَ عَنْ هَؤُلائِ الَّذِينَ تَرَكَهُمْ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَوَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَغَيْرُهُمْ مِنْ الأَئِمَّةِ.
یحیی بن سعید القطان سے مروی ہے کہ وہ جب کسی راوی کو ایک مرتبہ اپنے حافظہ سے روایت کرتے دیکھتے، اور دوسری مرتبہ اپنی کتاب سے اور دونوں حالتوں میں وہ ایک روایت پر ثابت قدم نہیں رہتا تو اس کو ترک کر دیتے تھے۔
قال ابو عيسى: وهكذا تكلم بعض اهل الحديث في سهيل بن ابي صالح، ومحمد بن إسحاق، وحماد بن سلمة، ومحمد بن عجلان، واشباه هؤلائ من الائمة إنما تكلموا فيهم من قبل حفظهم في بعض ما رووا، وقد حدث عنهم الائمة.قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، وَحَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ، وَأَشْبَاهِ هَؤُلائِ مِنْ الأَئِمَّةِ إِنَّمَا تَكَلَّمُوا فِيهِمْ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِمْ فِي بَعْضِ مَا رَوَوْا، وَقَدْ حَدَّثَ عَنْهُمْ الأَئِمَّةُ.
اور جن رواۃ کو یحییٰ القطان نے ترک کر دیا تھا ان سے عبداللہ بن المبارک، وکیع بن جراح، عبدالرحمٰن بن مہدی وغیرہ ائمہ حدیث نے روایت کی ہے ۱؎۔
حدثنا الحسن بن علي الحلواني، اخبرنا علي بن المديني، قال: قال لنا سفيان بن عيينة: كنا نعد سهيل بن ابي صالح ثبتا في الحديث.حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، قَالَ: قَالَ لنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: كُنَّا نَعُدُّ سُهَيْلَ بْنَ أَبِي صَالِحٍ ثَبْتًا فِي الْحَدِيثِ.
ترمذی کہتے ہیں: ایسے ہی بعض اہل حدیث نے سہیل بن ابی صالح، محمد بن اسحاق، حماد بن سلمہ، محمد بن عجلان اور اس درجہ کے ائمہ حدیث پر کلام کیا ہے، ان پر کلام کا سبب ان کی بعض احادیث کی روایت میں ضعف ہے جب کہ دوسرے ائمہ نے ان سے روایت کی ہے۔
حدثنا ابن ابي عمر قال: قال سفيان بن عيينة: كان محمد بن عجلان ثقة مامونا في الحديث.حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلانَ ثِقَةً مَأْمُونًا فِي الْحَدِيثِ.
علی بن المدینی سے روایت ہے کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہا: ہم سہیل بن ابی صالح کو حدیث میں ثقہ شمار کرتے تھے۔
قال ابو عيسى: وإنما تكلم يحيى بن سعيد القطان عندنا في رواية محمد بن عجلان عن سعيد المقبري.قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا تَكَلَّمَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عِنْدَنَا فِي رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ.
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: محمد بن عجلان حدیث میں ثقہ اور مامون تھے۔
اخبرنا ابو بكر، عن علي بن عبد الله قال: قال يحيى بن سعيد: قال محمد بن عجلان: احاديث سعيد المقبري: بعضها"سعيد عن ابي هريرة"، وبعضها"سعيد عن رجل عن ابي هريرة"؛ فاختلطت علي فصيرتها"عن سعيد، عن ابي هريرة"؛ فإنما تكلم يحيى بن سعيد عندنا في ابن عجلان لهذا، وقد روى يحيى عن ابن عجلان الكثير.أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلانَ: أَحَادِيثُ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ: بَعْضُهَا"سَعِيدٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ"، وَبَعْضُهَا"سَعِيدٌ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ"؛ فَاخْتَلَطَتْ عَلَيَّ فَصَيَّرْتُهَا"عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ"؛ فَإِنَّمَا تَكَلَّمَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عِنْدَنَا فِي ابْنِ عَجْلانَ لِهَذَا، وَقَدْ رَوَى يَحْيَى عَنْ ابْنِ عَجْلانَ الْكَثِيرَ.
ترمذی کہتے ہیں: ہمارے نزدیک یحییٰ بن سعید القطان نے محمد بن عجلان کی سعید المقبری سے روایت میں کلام کیا ہے۔ علی بن المدینی سے روایت ہے کہ یحییٰ بن سعید القطان کہتے ہیں کہ محمد بن عجلان کہتے ہیں: سعید المقبری کی بعض احادیث ابوہریرہ سے روایت ہے، اور بعض بواسطہ رجل عن ابی ہریرہ، سعید کی روایات مجھ پر مختلط ہو گئیں، تو ہم نے سب کو سعید عن ابی ہریرہ کی سند سے روایت کر دیا۔ ہمارے نزدیک یحییٰ بن سعید القطان نے ابن عجلان پر کلام اسی سبب سے کیا ہے، جب کہ یحییٰ بن سعید القطان نے ابن عجلان سے بکثرت روایت کی ہے۔
قال ابو عيسى: وهكذا من تكلم في ابن ابي ليلى إنما تكلم فيه من قبل حفظه.قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا مَنْ تَكَلَّمَ فِي ابْنِ أَبِي لَيْلَى إِنَّمَا تَكَلَّمَ فِيهِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
علی بن المدینی سے روایت ہے کہ یحییٰ بن سعید القطان کہتے ہیں: شعبہ نے بسند ابن ابی لیلیٰ عن أخیہ عیسیٰ عن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ عن أبی أیوب عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم چھینک کے بارے میں روایت کی ہے۔
قال علي: قال يحيى بن سعيد القطان: روى شعبة عن ابن ابي ليلى، عن اخيه عيسى، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن ابي ايوب، عن النبي صلى الله عليه وسلم في العطاس.قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ: رَوَى شُعْبَةُ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَخِيهِ عِيسَى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعُطَاسِ.
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: پھر میری ملاقات ابن ابی لیلیٰ سے ہوئی تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ ان سے ان کے بھائی عیسیٰ نے بیان کیا، عیسیٰ نے ابن ابی لیلیٰ سے روایت کی، اور انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے اور علی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
قال يحيى: ثم لقيت ابن ابي ليلى، فحدثنا عن اخيه عيسى، عن عبدالرحمن بن ابي ليلى، عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم.قَالَ يَحْيَى: ثُمَّ لَقِيتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى، فَحَدَّثَنَا عَنْ أَخِيهِ عِيسَى، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ترمذی کہتے ہیں: اسی طرح ابن ابی لیلیٰ پر جس نے کلام کیا تو وہ صرف حافظہ کی خرابی کی وجہ سے۔
قال ابو عيسى: ويروى عن ابن ابي ليلى نحو هذا غير شيئ، كان يروي الشيئ مرة هكذا، ومرة هكذا، يغير الإسناد، وإنما جاء هذا من قبل حفظه، واكثر من مضى من اهل العلم كانوا لايكتبون، ومن كتب منهم إنما كان يكتب لهم بعد السماع.قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيُرْوَى عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى نَحْوُ هَذَا غَيْرَ شَيْئٍ، كَانَ يَرْوِي الشَّيْئَ مَرَّةً هَكَذَا، وَمَرَّةً هَكَذَا، يُغَيِّرُ الإِسْنَادَ، وَإِنَّمَا جَاءَ هَذَا مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَأَكْثَرُ مَنْ مَضَى مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ كَانُوا لايَكْتُبُونَ، وَمَنْ كَتَبَ مِنْهُمْ إِنَّمَا كَانَ يَكْتُبُ لَهُمْ بَعْدَ السَّمَاعِ.
ترمذی کہتے ہیں: ابن ابی لیلیٰ سے اس طرح کی کئی چیزیں روایت کی جاتی ہیں، کبھی ایک چیز ایسے روایت کرتے، پھر اس کی سند میں تبدیلی کر دیتے ہیں اور یہ سب صرف حافظہ کی خرابی سے ہوا ہے، گزشتہ عہد کے اکثر علماء احادیث لکھتے نہیں تھے، اور جو لوگ لکھتے وہ سماع حدیث کے بعد لکھتے تھے۔
و سمعت احمد بن الحسن يقول: سمعت احمد بن حنبل يقول ابن ابي ليلى لا يحتج به.و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ ابْنُ أَبِي لَيْلَى لا يُحْتَجُّ بِهِ.
ترمذی کہتے ہیں: میں نے احمد بن الحسن کو کہتے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا: ابن ابی لیلیٰ سے حجت نہیں پکڑی جائے گی۔
وكذلك من تكلم من اهل العلم في مجالد بن سعيد، وعبد الله بن لهيعة وغيرهما إنما تكلموا فيهم من قبل حفظهم، وكثرة خطئهم، وقد روى عنهم غير واحد من الائمة. فإذا تفرد احد من هؤلائ بحديث، ولم يتابع عليه لم يحتج به، كما قال احمد بن حنبل: ابن ابي ليلى لا يحتج به، إنما عنى إذا تفرد بالشيئ.واشد ما يكون هذا إذا لم يحفظ الإسناد؛ فزاد في الإسناد او نقص او غير الإسناد او جاء بما يتغير فيه المعنى.وَكَذَلِكَ مَنْ تَكَلَّمَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ لَهِيعَةَ وَغَيْرِهِمَا إِنَّمَا تَكَلَّمُوا فِيهِمْ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِمْ، وَكَثْرَةِ خَطَئِهِمْ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُمْ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ. فَإِذَا تَفَرَّدَ أَحَدٌ مِنْ هَؤُلائِ بِحَدِيثٍ، وَلَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهِ لَمْ يُحْتَجَّ بِهِ، كَمَا قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: ابْنُ أَبِي لَيْلَى لا يُحْتَجُّ بِهِ، إِنَّمَا عَنَى إِذَا تَفَرَّدَ بِالشَّيْئِ.وَأَشَدُّ مَا يَكُونُ هَذَا إِذَا لَمْ يَحْفَظْ الإِسْنَادَ؛ فَزَادَ فِي الإِسْنَادِ أَوْ نَقَصَ أَوْ غَيَّرَ الإِسْنَادَ أَوْ جَاءَ بِمَا يَتَغَيَّرُ فِيهِ الْمَعْنَى.
ایسے ہی جن اہل علم نے مجالد بن سعید اور عبداللہ بن لہیعہ وغیرہ پر کلام کیا ہے تو اس کی وجہ صرف ان کے حافظہ کی خرابی اور روایت میں بکثرت خطا واقع ہونا ہے، جب کہ بہت سارے ائمہ نے ان سے روایت کی ہے تو جب ان رواۃ میں سے کوئی کسی حدیث کی روایت میں منفرد ہو اور اس کی متابعت نہ پائی جائے تو وہ قابل حجت نہ ہو گا، جیسے احمد بن حنبل کا قول کہ ابن ابی لیلیٰ قابل حجت نہیں، احمد بن حنبل کا مقصد یہ ہے کہ جب ابن ابی لیلیٰ کسی چیز کی روایت میں منفرد ہوں تو وہ قابل حجت نہیں ہیں۔ اور زیادہ یہ ہوتا ہے کہ راوی اسناد کو یاد نہیں رکھتا، تو سند میں کمی یا زیادتی کر دیتا ہے، یا سند بدل دیتا ہے، یا ایسے الفاظ سے روایت کر دیتا ہے جس سے معنی میں تبدیلی ہو جاتی ہے۔