قال ابو عيسى: وإنما حملنا على ما بينا في هذا الكتاب من قول الفقهائ وعلل الحديث لانا سئلنا عن هذا؛ فلم نفعله زمانا، ثم فعلناه؛ لما رجونا فيه من منفعة الناس.قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا حَمَلَنَا عَلَى مَا بَيَّنَّا فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ قَوْلِ الْفُقَهَائِ وَعِلَلِ الْحَدِيثِ لأَنَّا سُئِلْنَا عَنْ هَذَا؛ فَلَمْ نَفْعَلْهُ زَمَانًا، ثُمَّ فَعَلْنَاهُ؛ لِمَا رَجَوْنَا فِيهِ مِنْ مَنْفَعَةِ النَّاسِ.
فقہاء کے اقوال اور احادیث کی علل کا تذکرہ ہم نے اپنی کتاب میں اس لیے کیا ہے کہ ان چیزوں کے بارے میں ہم سے سوال ہوا، ہم ایک مدت تک ایسا نہیں کرتے تھے، ہم نے اقوال فقہاء اور علل حدیث کا تذکرہ اس واسطے کیا کہ اس میں لوگوں کے فوائد کی توقع ہے۔
لانا قد وجدنا غير واحد من الائمة تكلفوا من التصنيف ما لم يسبقوا إليه؛ منهم:لأَنَّا قَدْ وَجَدْنَا غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ تَكَلَّفُوا مِنْ التَّصْنِيفِ مَا لَمْ يُسْبَقُوا إِلَيْهِ؛ مِنْهُمْ:
اس لیے کہ ہم نے بہت سارے ائمہ کو دیکھا کہ انہوں نے تصنیف و تالیف کا کام کیا، ان سے پہلے کسی نے یہ کام نہیں کیا تھا، ان میں سے مندرجہ ذیل علماء ہیں:
1- هشام بن حسان،2- وعبد الملك بن عبد العزيز بن جريج،3- وسعيد بن ابي عروبة 4- ومالك بن انس،5- وحماد بن سلمة،6- وعبد الله بن المبارك.7- ويحيى بن زكريا بن ابي زائدة،8- ووكيع بن الجراح،9- وعبد الرحمن بن مهدي، وغيرهم من اهل العلم والفضل صنفوا فجعل الله في ذلك منفعة كثيرة؛ فنرجو لهم بذلك الثواب الجزيل عند الله لما نفع الله به المسلمين؛ فهم القدوة فيما صنفوا.1- هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ،2- وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ،3- وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ 4- وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ،5- وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ،6- وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمَبَارَكِ.7- وَيَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ،8- وَوَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ،9- وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَغَيْرُهُمْ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ صَنَّفُوا فَجَعَلَ اللَّهُ فِي ذَلِكَ مَنْفَعَةً كَثِيرَةً؛ فَنَرْجُو لَهُمْ بِذَلِكَ الثَّوَابَ الْجَزِيلَ عِنْدَ اللَّهِ لِمَا نَفَعَ اللَّهُ بِهِ الْمُسْلِمِينَ؛ فَهُمْ الْقُدْوَةُ فِيمَا صَنَّفُوا.
۱-ہشام بن حسان، ۲- عبدالملک بن عبدالعزیز ابن جریج، ۳- سعید بن ابی عروبہ، ۴- مالک بن انس، ۵- حماد بن سلمہ، ۶- عبداللہ بن المبارک، ۷- یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدۃ، ۸- وکیع بن الجراح، ۹- عبدالرحمٰن بن مہدی وغیرہ، اہل علم و فضل۔ ان افاضل نے تصنیف و تالیف کا کام کیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی کتابوں میں بڑا فائدہ و دیعت فرمایا، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے ان اعمال پر جن سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نفع پہنچایا ثواب جزیل عطا فرمائے، تصنیف کے باب میں یہ ائمہ ہمارے پیشوا ہیں۔
وقد عاب بعض من لا يفهم على اهل الحديث الكلام في الرجال، وقد وجدنا غير واحد من الائمة من التابعين قد تكلموا في الرجال منهم: الحسن البصري، وطاوس تكلما في معبد الجهني.وَقَدْ عَابَ بَعْضُ مَنْ لا يَفْهَمُ عَلَى أَهْلِ الْحَدِيثِ الْكَلامَ فِي الرِّجَالِ، وَقَدْ وَجَدْنَا غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ مِنْ التَّابِعِينَ قَدْ تَكَلَّمُوا فِي الرِّجَالِ مِنْهُمْ: الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ، وَطَاوُسٌ تَكَلَّمَا فِي مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ.
بعض نادان لوگوں نے اہل حدیث کو رجال حدیث پر جرح کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا، جب کہ ہم نے دیکھا کہ بعض ائمہ تابعین نے رواۃ احادیث پر کلام کیا، ان میں سے حسن بصری اور طاؤس نے معبد جہنی پر کلام کیا۔
وهكذا روي عن ايوب السختياني، وعبد الله بن عون، وسليمان التيمي، وشعبة بن الحجاج، وسفيان الثوري، ومالك بن انس، والاوزاعي، وعبد الله بن المبارك، ويحيى بن سعيد القطان، ووكيع بن الجراح، وعبد الرحمن بن مهدي وغيرهم من اهل العلم انهم تكلموا في الرجال وضعفوا.وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ، وَسُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، وَشُعْبَةَ بْنِ الْحَجَّاجِ، وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالأَوْزَاعِيِّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، وَوَكِيعِ بْنِ الْجَرَّاحِ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ وَغَيْرِهِمْ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُمْ تَكَلَّمُوا فِي الرِّجَالِ وَضَعَّفُوا.
اسی طرح ایوب سختیانی، عبداللہ بن عون، سلیمان تیمی، شعبہ بن الحجاج، سفیان ثوری، مالک بن انس، اوزاعی، عبداللہ بن المبارک، یحییٰ بن سعید القطان، وکیع بن الجراح اور عبدالرحمٰن بن مہدی وغیرہ اہل علم کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے راوۃ حدیث پر کلام کیا، اور ان کی تضعیف کی۔
وإنما حملهم على ذلك عندنا -والله اعلم- النصيحة للمسلمين. لا يظن بهم انهم ارادوا الطعن على الناس او الغيبة، إنما ارادوا عندنا ان يبينوا ضعف هؤلائ؛ لكي يعرفوا.وَإِنَّمَا حَمَلَهُمْ عَلَى ذَلِكَ عِنْدَنَا -وَاللَّهُ أَعْلَمُ- النَّصِيحَةُ لِلْمُسْلِمِينَ. لا يُظَنُّ بِهِمْ أَنَّهُمْ أَرَادُوا الْطَعْنَ عَلَى النَّاسِ أَوْ الْغِيبَةَ، إِنَّمَا أَرَادُوا عِنْدَنَا أَنْ يُبَيِّنُوا ضَعْفَ هَؤُلائِ؛ لِكَيْ يُعْرَفُوا.
ہمارے نزدیک ان کو اس اقدام پر مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کے جذبہ نے ابھارا، واللہ اعلم۔ ان ائمہ کے بارے میں یہ خیال نہیں ہونا چاہیئے کہ انہوں نے لوگوں کو مطعون کیا یا ان کی غیبت کی۔
لان بعض الذين ضعفوا كان صاحب بدعة، وبعضهم كان متهما في الحديث، وبعضهم كانوا اصحاب غفلة وكثرة خطإ؛ فاراد هؤلائ الائمة ان يبينوا احوالهم شفقة على الدين وتثبيتا؛ لان الشهادة في الدين احق ان يتثبت فيها من الشهادة في الحقوق والاموال.لأَنَّ بَعْضَ الَّذِينَ ضُعِّفُوا كَانَ صَاحِبَ بِدْعَةٍ، وَبَعْضَهُمْ كَانَ مُتَّهَمًا فِي الْحَدِيثِ، وَبَعْضَهُمْ كَانُوا أَصْحَابَ غَفْلَةٍ وَكَثْرَةِ خَطَإٍ؛ فَأَرَادَ هَؤُلائِ الأَئِمَّةُ أَنْ يُبَيِّنُوا أَحْوَالَهُمْ شَفَقَةً عَلَى الدِّينِ وَتَثْبِيتًا؛ لأَنَّ الشَّهَادَةَ فِي الدِّينِ أَحَقُّ أَنْ يُتَثَبَّتَ فِيهَا مِنْ الشَّهَادَةِ فِي الْحُقُوقِ وَالأَمْوَالِ.
انہوں نے ہمارے خیال میں رواۃ کے ضعف کو اس لیے بیان کیا تاکہ ان کے بارے میں لوگوں کو علم ہو جائے اس لیے کہ، ۱- بعض ضعیف رواۃ اہل بدعت میں سے تھے، ۲- اور بعض روایت حدیث کے باب میں متہم بالکذب تھے، ۳- بعض اصحاب غفلت اور کثیر الخطا تھے، ان ائمہ نے دینی جذبہ سے ان رواۃ کے احوال کو بیان کیا اس لیے کہ دین کے بارے میں شہادت حقوق اور اموال میں شہادت سے زیادہ تحقیق اور ثبوت کی حقدار ہے۔
قال: و اخبرني محمد بن إسماعيل، حدثنا محمد بن يحيى بن سعيد القطان، حدثني ابي، قال: سالت سفيان الثوري، وشعبة، ومالك بن انس، وسفيان بن عيينة عن الرجل تكون فيه تهمة او ضعف؛ اسكت او ابين؟ قالوا: بين.قَالَ: و أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: سَأَلْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ، وَشُعْبَةَ، وَمَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، وَسُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ عَنْ الرَّجُلِ تَكُونُ فِيهِ تُهْمَةٌ أَوْ ضَعْفٌ؛ أَسْكُتُ أَوْ أُبَيِّنُ؟ قَالُوا: بَيِّنْ.
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: میں نے سفیان ثوری، شعبہ، مالک بن انس اور سفیان بن عیینہ سے راوی کے بارے میں سوال کیا کہ اس پر جھوٹ بولنے کا الزام ہے، یا اس میں ضعف ہے، تو میں خاموش رہوں یا بیان کر دوں، تو ان سب لوگوں نے کہا: بیان کر دو۔
حدثنا محمد بن رافع النيسابوري، حدثنا يحيى بن آدم، قال: قيل لابي بكر بن عياش: إن اناسا يجلسون ويجلس إليهم الناس، ولا يستاهلون؟! قال: فقال ابو بكر بن عياش: كل من جلس؛ جلس إليه الناس، وصاحب السنة إذا مات احيا الله ذكره، والمبتدع لايذكر.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: قِيلَ لأَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ: إِنَّ أُنَاسًا يَجْلِسُونَ وَيَجْلِسُ إِلَيْهِمْ النَّاسُ، وَلا يَسْتَأْهِلُونَ؟! قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ: كُلُّ مَنْ جَلَسَ؛ جَلَسَ إِلَيْهِ النَّاسُ، وَصَاحِبُ السُّنَّةِ إِذَا مَاتَ أَحْيَا اللَّهُ ذِكْرَهُ، وَالْمُبْتَدِعُ لايُذْكَرُ.
یحیی بن آدم کہتے ہیں کہ ابوبکر بن عیاش سے کہا گیا: بعض لوگ درس دینے بیٹھتے ہیں، اور لوگ ان کے پاس آ کر بیٹھتے ہیں، لیکن وہ درس دینے کی اہلیت نہیں رکھتے تو ابوبکر بن عیاش نے کہا: جو شخص بھی درس دینے بیٹھتا ہے لوگ اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں۔ صاحب سنت (صحیح عقیدہ والا) جب مر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذکر کا چرچہ کر دیتا ہے، اور بدعتی کا ذکر مٹ جاتا ہے۔
حدثنا محمد بن علي بن الحسن بن شقيق، اخبرنا النضر بن عبد الله الاصم، حدثنا إسماعيل بن زكريا، عن عاصم، عن ابن سيرين قال: كان في الزمن الاول لايسالون عن الإسناد؛ فلما وقعت الفتنة سالوا عن الإسناد؛ لكي ياخذوا حديث اهل السنة، ويدعوا حديث اهل البدع.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَصَمُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ: كَانَ فِي الزَّمَنِ الأَوَّلِ لايَسْأَلُونَ عَنْ الإِسْنَادِ؛ فَلَمَّا وَقَعَتْ الْفِتْنَةُ سَأَلُوا عَنْ الإِسْنَادِ؛ لِكَيْ يَأْخُذُوا حَدِيثَ أَهْلِ السُّنَّةِ، وَيَدَعُوا حَدِيثَ أَهْلِ الْبِدَعِ.
محمد بن سیرین کہتے ہیں: پہلے زمانے میں لوگ سند حدیث کے بارے میں نہیں سوال کرتے تھے، لیکن جب سے فتنہ شروع ہوا ۱؎ لوگوں نے سند کے بارے میں سوال کرنا شروع کیا تاکہ احادیث اہل سنت سے لیں اور اہل بدعت کی احادیث چھوڑ دیں ۲؎۔
حدثنا محمد بن علي بن الحسن، قال: سمعت عبدان يقول: قال عبدالله بن المبارك: الإسناد عندي من الدين؛ لولا الإسناد؛ لقال من شائ ما شائ؛ فإذا قيل له: من حدثك؟ بقي.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَانَ يَقُولُ: قَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: الإِسْنَادُ عِنْدِي مِنْ الدِّينِ؛ لَوْلا الإِسْنَادُ؛ لَقَالَ مَنْ شَائَ مَا شَائَ؛ فَإِذَا قِيلَ لَهُ: مَنْ حَدَّثَكَ؟ بَقِيَ.
عبداللہ بن المبارک کہتے ہیں: میرے نزدیک سند دین میں سے ہے، اگر سند نہ ہوتی تو جو جو چاہتا کہتا، جب اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث تم سے کس نے روایت کی تو وہ چپ ہو جاتا ہے۔
حدثنا محمد بن علي، اخبرنا حبان بن موسى، قال: ذكر لعبدالله بن المبارك حديث؛ فقال: يحتاج لهذا اركان من آجر.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: ذُكِرَ لِعَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ حَدِيثٌ؛ فَقَالَ: يُحْتَاجُ لِهَذَا أَرْكَانٌ مِنْ آجُرٍّ.
حبان بن موسیٰ کہتے ہیں: عبداللہ بن المبارک سے ایک حدیث ذکر کی گئی تو آپ نے کہا: اس کے لیے تو پختہ اینٹوں کے ستون چاہئیں،
حدثنا احمد بن عبدة، حدثنا وهب بن زمعة، عن عبد الله بن المبارك انه ترك حديث الحسن بن عمارة، والحسن بن دينار، وإبراهيم بن محمد الاسلمي، ومقاتل بن سليمان، وعثمان البري، وروح بن مسافر، وابي شيبة الواسطي، وعمرو بن ثابت، وايوب بن خوط، وايوب بن سويد، ونصر بن طريف -هو ابو جزئ- والحكم. وحبيب الحكم روى له حديثا في كتاب الرقاق، ثم تركه. وقال: حبيب لا ادري.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ زَمْعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ تَرَكَ حَدِيثَ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ، وَالْحَسَنِ بْنِ دِينَارٍ، وَإِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الأَسْلَمِيِّ، وَمُقَاتِلِ بْنِ سُلَيْمَانَ، وَعُثْمَانَ الْبُرِّيِّ، وَرَوْحِ بْنِ مُسَافِرٍ، وَأَبِي شَيْبَةَ الْوَاسِطِيِّ، وَعَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ، وَأَيُّوبَ بْنِ خُوطٍ، وَأَيُّوبَ بْنِ سُوَيْدٍ، وَنَصْرِ بْنِ طَرِيفٍ -هُوَ أَبُو جَزْئٍ- وَالْحَكَمِ. وَحَبِيبٍ الْحَكَمُ رَوَى لَهُ حَدِيثًا فِي كِتَابِ الرِّقَاقِ، ثُمَّ تَرَكَهُ. وَقَالَ: حَبِيبٌ لا أَدْرِي.
وہب بن زمعہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن المبارک نے حسن بن عمارہ، حسن بن دینار، ابراہیم بن محمد اسلمی، مقاتل بن سلیمان، اور عثمان بری، روح بن مسافر، ابوشیبہ واسطی، عمرو بن ثابت، ایوب بن خوط، ایوب بن سوید، ابوجزء نصر بن طریف، حکم اور حبیب کی احادیث ترک کر دی۔ عبداللہ بن المبارک نے حکم کی صرف ایک حدیث کتاب الزہد و الرقاق میں روایت کی پھر اس کو ترک کر دیا۔ اور کہا: حبیب کو میں نہیں جانتا۔
قال احمد بن عبدة: وسمعت عبدان قال: كان عبدالله بن المبارك قرا احاديث بكر بن خنيس؛ فكان اخيرا إذا اتى عليها اعرض عنها، وكان لايذكره.قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ: وَسَمِعْتُ عَبْدَانَ قَالَ: كَانَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ قَرَأَ أَحَادِيثَ بَكْرِ بْنِ خُنَيْسٍ؛ فَكَانَ أَخِيرًا إِذَا أَتَى عَلَيْهَا أَعْرَضَ عَنْهَا، وَكَانَ لايَذْكُرُهُ.
عبدان کہتے ہیں: عبداللہ بن المبارک نے بکر بن خنیس کی احادیث پڑھی تھیں، بعد میں جب وہ ان احادیث پر آتے تو ان سے صرف نظر کرتے، اور بکر کا تذکرہ نہیں کرتے تھے۔
قال احمد: حدثنا ابو وهب، قال: سموا لعبد الله بن المبارك رجلا يتهم في الحديث؛ فقال: لان اقطع الطريق احب إلي من ان احدث عنه.قَالَ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا أَبُو وَهْبٍ، قَالَ: سَمَّوْا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ رَجُلا يُتَّهَمُ فِي الْحَدِيثِ؛ فَقَالَ: لأَنْ أَقْطَعَ الطَّرِيقَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُحَدِّثَ عَنْهُ.
ابووہب کہتے ہیں: لوگوں نے عبداللہ بن المبارک سے حدیث میں ایک متہم بالکذب راوی کا نام لیا تو آپ نے کہا: میں ڈاکہ ڈالوں یہ اس سے بہتر ہے کہ میں اس سے حدیث روایت کروں۔
قال: اخبرني موسى بن حزام، قال: سمعت يزيد بن هارون يقول: لا يحل لاحد ان يروي عن سليمان بن عمرو النخعي الكوفي.قَالَ: أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ حِزَامٍ، قَال: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ هَارُونَ يَقُولُ: لا يَحِلُّ لأَحَدٍ أَنْ يَرْوِيَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرٍو النَّخَعِيِّ الْكُوفِيِّ.
یزید بن ہارون کہتے ہیں: کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ سلیمان بن عمرو کوفی سے روایت کرے۔
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابويحيى الحماني،قال: سمعت اباحنيفة يقول: ما رايت احدا اكذب من جابر الجعفي، ولا افضل من عطائ بن ابي رباح.حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُويَحْيَى الْحِمَّانِيُّ،قَال: سَمِعْتُ أَبَاحَنِيفَةَ يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْذَبَ مِنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ، وَلا أَفْضَلَ مِنْ عَطَائِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ.
ابویحیی حمانی کہتے ہیں کہ میں نے ابوحنیفہ کو کہتے سنا: میں نے جابر جعفی سے زیادہ جھوٹا کوئی راوی نہیں دیکھا اور نہ عطاء بن ابی رباح سے افضل کسی کو دیکھا۔
قال ابو عيسى: و سمعت الجارود يقول: سمعت وكيعا يقول: لولا جابر الجعفي لكان اهل الكوفة بغير حديث، ولولا حماد لكان اهل الكوفة بغير فقه.قَالَ أَبُو عِيسَى: و سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: لَوْلا جَابِرٌ الْجُعْفِيُّ لَكَانَ أَهْلُ الْكُوفَةِ بِغَيْرِ حَدِيثٍ، وَلَوْلا حَمَّادٌ لَكَانَ أَهْلُ الْكُوفَةِ بِغَيْرِ فِقْهٍ.
جارود کہتے ہیں: میں نے وکیع بن جراح کو یہ کہتے سنا: جابر جعفی نہ ہوتا تو اہل کوفہ بغیر حدیث کے ہوتے، اور حماد بن ابی سلیمان کوفی نہ ہوتے تو اہل کوفہ بغیر فقہ کے ہوتے۔
قال ابو عيسى: و سمعت احمد بن الحسن يقول: كنا عند احمد بن حنبل؛ فذكروا من تجب عليه الجمعة؛ فذكروا فيه عن بعض اهل العلم من التابعين وغيرهم؛ فقلت: فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم حديث؛ فقال: عن النبي صلى الله عليه وسلم؟! قلت: نعم، حدثنا حجاج بن نصير، حدثنا المعارك بن عباد، عن عبد الله بن سعيد المقبري، عن ابيه، عن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"الجمعة على من آواه الليل إلى اهله".قال: فغضب احمد بن حنبل، وقال: استغفر ربك،استغفر ربك -مرتين-.قَالَ أَبُو عِيسَى: و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ؛ فَذَكَرُوا مَنْ تَجِبُ عَلَيْهِ الْجُمُعَةُ؛ فَذَكَرُوا فِيهِ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ؛ فَقُلْتُ: فِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ؛ فَقَالَ: عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟! قُلْتُ: نَعَمْ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ نُصَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُعَارِكُ بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"الْجُمُعَةُ عَلَى مَنْ آوَاهُ اللَّيْلُ إِلَى أَهْلِهِ".قَالَ: فَغَضِبَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَقَالَ: اسْتَغْفِرْ رَبَّكَ،اسْتَغْفِرْ رَبَّكَ -مَرَّتَيْنِ-.
ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن الحسن کو کہتے سنا: ہم احمد بن حنبل کے پاس تھے تو لوگوں نے ذکر کیا کہ کس پر جمعہ فرض ہے؟ بعض تابعی اور تبع تابعی اہل علم سے اس بارے میں اقوال ذکر کئے تو میں نے کہا: اس باب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث ہے، پوچھا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے؟ میں نے کہا: ہاں، ہم سے حجاج بن نصیر نے بیان کیا، حجاج سے معارک بن عباد نے اور معارک سے عبداللہ بن سعید مقبری نے، عبداللہ بن سعید نے اپنے والد سعید مقبری سے، اور مقبری ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”جمعہ اس شخص پر فرض ہوتا ہے جو رات کو اپنے گھر تک پہنچ جائے۔“ اس پر احمد بن حنبل غصہ ہوئے اور دو بار کہا: اور أستغفر اللہ کہا، اپنے رب سے مغفرت طلب کرو، اپنے رب سے مغفرت طلب کرو۔
قال ابو عيسى: وإنما فعل هذا احمد بن حنبل لانه لم يصدق هذا عن النبي صلى الله عليه وسلم لضعف إسناده، لانه لم يعرفه عن النبي صلى الله عليه وسلم، والحجاج بن نصير يضعف في الحديث، وعبد الله بن سعيد المقبري ضعفه يحيى بن سعيد القطان جدا في الحديث.قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا فَعَلَ هَذَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ لأَنَّهُ لَمْ يُصَدِّقْ هَذَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِضَعْفِ إِسْنَادِهِ، لأَنَّهُ لَمْ يَعْرِفْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْحَجَّاجُ بْنُ نُصَيْرٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ جِدًّا فِي الْحَدِيثِ.
ترمذی کہتے ہیں: احمد بن حنبل نے ایسا اس لیے کیا کہ سند کے ضعف کی وجہ سے یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح نہیں تھی، اور آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے ثابت ہونے کا علم نہیں تھا، حجاج بن نصیر کی حدیث میں تضعیف کی گئی ہے، اور عبداللہ بن سعید مقبری کو یحییٰ بن سعید القطان نے حدیث میں بہت ضعیف قرار دیا ہے۔
قال ابوعيسى: فكل من روي عنه حديث ممن يتهم او يضعف لغفلته، وكثرة خطئه، ولايعرف ذلك الحديث إلا من حديثه، فلا يحتج به.قَالَ أَبُوعِيسَى: فَكُلُّ مَنْ رُوِيَ عَنْهُ حَدِيثٌ مِمَّنْ يُتَّهَمُ أَوْ يُضَعَّفُ لِغَفْلَتِهِ، وَكَثْرَةِ خَطَئِهِ، وَلايُعْرَفُ ذَلِكَ الْحَدِيثُ إِلا مِنْ حَدِيثِهِ، فَلا يُحْتَجُّ بِهِ.
ترمذی کہتے ہیں: ہر وہ راوی جس سے کوئی حدیث روایت کی گئی ہو اور متہم بالکذب ہو یا غفلت اور کثرت اخطاء کی وجہ سے اس کی تضعیف کی گئی ہو اور وہ حدیث صرف اس کے ہی طریق سے معروف ہو تو ایسے راوی سے حجت نہیں پکڑی جائے گی ۱؎۔
وقد روى غير واحد من الائمة عن الضعفائ، وبينوا احوالهم للناس.وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ عَنْ الضُّعَفَائِ، وَبَيَّنُوا أَحْوَالَهُمْ لِلنَّاسِ.
بہت سارے ائمہ نے ضعفاء سے روایت کی ہے اور لوگوں کے لیے ان کے حالات کو بھی بیان کر دیا ہے۔