عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ
(لشکر) روانہ کیا اور اس لشکر کا امیر علی رضی الله عنہ کو مقرر کیا، چنانچہ وہ اس سریہ
(لشکر) میں گئے، پھر ایک لونڈی سے انہوں نے جماع کر لیا
۱؎ لوگوں نے ان پر نکیر کی اور رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے چار آدمیوں نے طے کیا اور کہا کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ہم ملیں گے تو علی نے جو کچھ کیا ہے اسے ہم آپ کو بتائیں گے، اور مسلمان جب سفر سے لوٹتے تو پہلے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے اور آپ کو سلام کرتے تھے، پھر اپنے گھروں کو جاتے، چنانچہ جب یہ سریہ واپس لوٹ کر آیا اور لوگوں نے آپ کو سلام کیا تو ان چاروں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ علی نے ایسا ایسا کیا ہے؟ تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ پھیر لیا، پھر دوسرا کھڑا ہوا تو دوسرے نے بھی وہی بات کہی جو پہلے نے کہی تھی تو آپ نے اس سے بھی منہ پھیر لیا، پھر تیسرا شخص کھڑا ہوا اس نے بھی وہی بات کہی، تو اس سے بھی آپ نے منہ پھیر لیا، پھر چوتھا شخص کھڑا ہوا تو اس نے بھی وہی بات کہی جو ان لوگوں نے کہی تھی تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کے چہرے سے ناراضگی ظاہر تھی۔ آپ نے فرمایا:
”تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیا چاہتے ہو؟ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں
۱؎ اور وہ دوست ہیں ہر اس مومن کا جو میرے بعد آئے گا
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان کی روایت سے جانتے ہیں۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3712
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ لونڈی مال غنیمت میں سے تھی،
تو لوگوں نے اس لیے اعتراض کیا کہ ابھی مال غنیمت کی تقسیم تو عمل میں آئی نہیں،
اس لیے یہ مال غنیمت میں خرد برد کے ضمن میں آتا ہے،
یا اس لیے اعتراض کیا کہ مال غنیمت کی لونڈیوں میں ضروری ہے کہ پہلے ایک ماہواری سے ان کے رحم کی صفائی ہو جائے،
اورعلیؓ نے ایسا نہیں کیا ہے،
یہ بات تو علی رضی اللہ عنہ سے بالکل بعید ہے کہ استبراء رحم (رحم کی صفائی) سے پہلے لونڈی سے ہم بستری کر بیٹھیں،
ہوا یہ ہو گا کہ ایک دو دن کے بعد ہی وہ ماہواری سے فارغ ہوئی ہو گی،
تو اب مزید ماہواری کی تو ضرورت تھی نہیں۔
2؎:
اس جملہ سے اہل تشیع کا یہ استدلال کرنا کہ علی رضی اللہ عنہ سارے صحابہ سے افضل ہیں درست نہیں ہے کیوں کہ کچھ اور صحابہ بھی ہیں جن کے متعلق آپﷺ نے یہی جملہ کہا ہے،
مثلا ً جلیبیب کے متعلق آپﷺ نے فرمایا: (هٰذَا مِنِّیْ وَ أَنَا مِنْهُ) اسی طرح اشعریین کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا: (فَهُمْ مِّنِّیْ وَ أَنَا مِنْهُمْ) یہ دونوں روایتیں صحیح مسلم کی ہیں،
مسند احمد میں ہے: آپ ﷺ نے بنی ناجیہ کے متعلق فرمایا: (أنَا مِنْهُمْ وَهُمْ مِّنِّیْ)
نیز اس سے یہ استدلال کرنا بھی صحیح نہیں ہے کہ ”علیؓ مجھ سے ہیں“ کا مطلب ہے: علی آپﷺ کی ذات ہی میں سے ہیں،
اس سے مراد ہے: نسب۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3712