(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا ابي، عن شريك، عن منصور، عن ربعي بن حراش، حدثنا علي بن ابي طالب، بالرحبة، قال: لما كان يوم الحديبية خرج إلينا ناس من المشركين فيهم سهيل بن عمرو، واناس من رؤساء المشركين، فقالوا: يا رسول الله خرج إليك ناس من ابنائنا , وإخواننا , وارقائنا وليس لهم فقه في الدين , وإنما خرجوا فرارا من اموالنا وضياعنا , فارددهم إلينا، قال: فإن لم يكن لهم فقه في الدين سنفقههم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " يا معشر قريش لتنتهن او ليبعثن الله عليكم من يضرب رقابكم بالسيف على الدين، قد امتحن الله قلبه على الإيمان "، قالوا: من هو يا رسول الله؟ فقال له ابو بكر: من هو يا رسول الله؟ وقال عمر: من هو يا رسول الله؟ قال: " هو خاصف النعل وكان اعطى عليا نعله يخصفها، ثم التفت إلينا علي "، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من كذب علي متعمدا فليتبوا مقعده من النار ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث ربعي عن علي، قال: وسمعت الجارود، يقول: سمعت وكيعا يقول: لم يكذب ربعي بن حراش في الإسلام كذبة، واخبرني محمد بن إسماعيل، عن عبد الله بن ابي الاسود، قال: سمعت عبد الرحمن بن مهدي، يقول: منصور بن المعتمر اثبت اهل الكوفة.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، بِالرَّحَبَةِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ الْحُدَيْبِيَةِ خَرَجَ إِلَيْنَا نَاسٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فِيهِمْ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو، وَأُنَاسٌ مِنْ رُؤَسَاءِ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ خَرَجَ إِلَيْكَ نَاسٌ مِنْ أَبْنَائِنَا , وَإِخْوَانِنَا , وَأَرِقَّائِنَا وَلَيْسَ لَهُمْ فِقْهٌ فِي الدِّينِ , وَإِنَّمَا خَرَجُوا فِرَارًا مِنْ أَمْوَالِنَا وَضِيَاعِنَا , فَارْدُدْهُمْ إِلَيْنَا، قَالَ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ فِقْهٌ فِي الدِّينِ سَنُفَقِّهُهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ لَتَنْتَهُنَّ أَوْ لَيَبْعَثَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ مَنْ يَضْرِبُ رِقَابَكُمْ بِالسَّيْفِ عَلَى الدِّينِ، قَدِ امْتَحَنَ اللَّهُ قَلْبَهُ عَلَى الْإِيمَانِ "، قَالُوا: مَنْ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ: مَنْ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ وَقَالَ عُمَرُ: مَنْ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " هُوَ خَاصِفُ النَّعْلِ وَكَانَ أَعْطَى عَلِيًّا نَعْلَهُ يَخْصِفُهَا، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا عَلِيٌّ "، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ رِبْعِيٍّ عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: وَسَمِعْت الْجَارُودَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: لَمْ يَكْذِبْ رِبْعِيُّ بْنُ حِرَاشٍ فِي الْإِسْلَامِ كَذْبَةً، وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ، يَقُولُ: مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ أَثْبَتُ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ ہم سے علی بن ابوطالب رضی الله عنہ نے «رحبیہ»(مخصوص بیٹھک) میں بیان کیا، حدیبیہ کے دن مشرکین میں سے کچھ لوگ ہماری طرف نکلے، ان میں سہیل بن عمرو اور مشرکین کے کچھ اور سردار بھی تھے یہ سب آ کر کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہمارے بیٹوں، بھائیوں اور غلاموں میں سے کچھ آپ کی طرف نکل کر آ گئے ہیں، انہیں دین کی سمجھ نہیں وہ ہمارے مال اور سامانوں کے درمیان سے بھاگ آئے ہیں، آپ انہیں واپس کر دیجئیے اگر انہیں دین کی سمجھ نہیں تو ہم انہیں سمجھا دیں گے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے گروہ قریش! تم اپنی نفسیانیت سے باز آ جاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر ایسے شخص کو بھیجے گا جو تمہاری گردنیں اسی دین کی خاطر تلوار سے اڑائے گا، اللہ نے اس کے دل کو ایمان کے لیے جانچ لیا ہے، لوگوں نے عرض کیا: وہ کون شخص ہے؟ اللہ کے رسول! اور آپ سے ابوبکر رضی الله عنہ نے بھی پوچھا: وہ کون ہے اللہ کے رسول؟ اور عمر رضی الله عنہ نے بھی کہ وہ کون ہے اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا: ”وہ جوتی ٹانکنے والا ہے، اور آپ نے علی رضی الله عنہ کو اپنا جوتا دے رکھا تھا، وہ اسے ٹانک رہے تھے، (راوی کہتے ہیں) پھر علی رضی الله عنہ ہماری جانب متوجہ ہوئے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو میرے اوپر جھوٹ باندھے اسے چاہیئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنا لے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے اس سند سے صرف ربعی ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ علی رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں، ۲- میں نے جارود سے سنا وہ کہہ رہے تھے: میں نے وکیع کو کہتے ہوئے سنا کہ ربعی بن حراش نے اسلام میں کبھی کوئی جھوٹ نہیں بولا، ۳- اور مجھے محمد بن اسماعیل بخاری نے خبر دی اور وہ عبداللہ بن ابی اسود سے روایت کر رہے تھے، وہ کہتے ہیں: میں نے عبدالرحمٰن بن مہدی کو کہتے سنا: منصور بن معتمر اہل کوفہ میں سب سے ثقہ آدمی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجھاد 136 (2700)، وانظر أیضا حدیث رقم 2660 (تحفة الأشراف: 10088) (ضعیف الإسناد) (سند میں سفیان بن وکیع ضعیف ہیں، لیکن حدیث کا آخری لفظ ”من کذب …“ دیگر سندوں سے صحیح متواتر ہے، ملاحظہ ہو: حدیث نمبر (2660، اور 2659، اور 2661)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد، لكن الجملة الأخيرة منه صحيحة متواترة انظر الحديث (2796) // صحيح سنن الترمذي - باختصار السند - (2141 / 2809)، وصحيح سنن النسائي - باختصار السند - 2141 - 2809) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3715) إسناده ضعيف / د 2700 شريك القاضي عنعن (تقدم:112) وجاء تصريح سماعه فى فضائل الصحابة لاحمد (1105) وسنده ضعيف جدًا ولبعض الحديث شواهد وقول منصور وقول وكيع صحيحان عنهما
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3715
اردو حاشہ: وضاحت: نوٹ: سند میں سفیان بن وکیع ضعیف ہیں، لیکن حدیث کے آخری الفاظ «مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ» دیگر سندوں سے صحیح متواتر ہے، ملاحظہ ہو: حدیث نمبر 2660 ، 2659 اور 2661۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3715
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 106
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے والے کا گناہ` «. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَكْذِبُوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ فَلْيَلِجْ النَّارَ . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر جھوٹ مت بولو۔ کیونکہ جو مجھ پر جھوٹ باندھے وہ دوزخ میں داخل ہو . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 106]
� تشریح: یعنی مجھ پر جھوٹ باندھنے والے کو چاہئیے کہ وہ دوزخ میں داخل ہونے کو تیار رہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 106
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث38
´جان بوجھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹی حدیث روایت کرنے والے کی مذمت۔` علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مجھ سے کوئی حدیث یہ جانتے ہوئے بیان کرے کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ دو جھوٹوں میں سے ایک ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 38]
اردو حاشہ: ➊ جس طرح جھوٹی حدیث گھڑنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، اسی طرح اس جعلی حدیث کو دوسروں تک پہنچانا بھی بڑا جرم ہے۔ ایسی حدیث روایت کرنے والا اسے گھڑنے والے کے ساتھ گناہ میں شریک ہے، لہٰذا وہ بھی اسی وعید کا مستحق ہے، جو حدیث گھڑنے والے کے حق میں وارد ہے، یعنی وہ جہنمی ہے۔
➋ «الْكَاذِبَيْنِ» حدیث کا یہ لفظ دو طرح سے پڑھا گیا ہے، تثنیہ کے صیغے سے «الْكَاذِبَيْنِ» اور جمع کے صیغے سے «الْكَاذِبِيْنَ» مذکورہ بالا ترجمہ تثنیہ کے لحاظ سے کیا گیا ہے۔ جمع کے لحاظ سے ترجمہ یوں ہو گا: ”وہ بھی جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔“ اس اختلاف سے اصل مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
➌ ان دو جھوٹوں سے مراد دو مدعی نبوت ہیں، مسیلمہ کذاب یمامہ (نجد) میں اور اسود عنسی یمن میں۔ دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نبوت کا دعوی کر دیا تھا، اس لیے جس نے کوئی حدیث گھڑی تو گویا اس نے دعویٰ کیا کہ وہ نبی ہے کیونکہ قرآن کی طرح حدیث بھی ایک طرح سے وحی ہے کیونکہ یہ بھی اللہ کی طرف سے الہام ہوتی ہے۔ جمع والا معنی کرنے سے مراد ہو گا کہ قیامت تک جتنے نبوت کا دعویٰ کرنے والے آئیں گے، وہ بھی ان میں سے ایک ہو گا۔ ایک حدیث میں آپ نے قیامت سے پہلے پہلے تیس کذاب و دجال (جھوٹے نبیوں) کا ذکر فرمایا ہے [مسند احمد: 104/2] اور جھوٹی روایت گھڑنے والے کو ان کے ساتھ شمار کیا ہے۔
➍ لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے ایسی روایت بیان کرنا جائز ہے تاکہ وہ اس سے دھوکا کھا کر اس پر عمل نہ کر بیٹھیں، کیونکہ اس صورت میں مقصود دھوکا دینا نہیں، بلکہ دھوکے سے بچانا ہوتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 38
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث، صحيح مسلم: 2
حضرت علیؓ نے خطبہ کے دوران بیان کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میری طرف بات منسوب نہ کرو، میرے اوپر جھوٹ مت باندھو(حقیقت یہ ہے) جو شخص میرے اوپر جھوٹ باندھے گا (وہ جہنّم کا حق دارہے)، جہنّم میں داخل ہوگا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:2]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: «كذب على النبى صلى الله عليه وسلم» سے مراد یہ ہے کہ اپنی یا کسی دوسرے کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دی جائے، اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں، شریعت کی تائید میں، ترغیب وترہیب کی خاطر حدیث گھڑنا جائز ہے، کیونکہ جو بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی، اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرار دینا ہی جھوٹ ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:106
106. حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(دیکھو!) مجھ پر جھوٹ نہ باندھنا کیونکہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے گا، وہ یقینا دوزخ میں جائے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:106]
حدیث حاشیہ: 1۔ خطباء حضرات جوش خطابت میں بعض دفعہ کئی ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جو سرا سر غلط ہوتی ہیں، پھر ان کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر دیتے ہیں، یعنی ان غلط باتوں کو حدیث کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی چیز کے انتساب میں کامل یقین، پورے احتیاط اور تثبت کی ضرورت ہے اگر احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا تو نیکی برباد گناہ لازم کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے والے کے لیے جہنم ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کے مقابلے میں آگ میں داخل ہونا گوارا کرلیا جائے لیکن آپ پر جھوٹ نہ بولا جائے۔ واللہ اعلم2۔ اس وعید میں ہر طرح کا جھوٹ آجاتا ہے جو لوگ ترغیب و ترہیب کے باب میں بے اصل روایات بیان کرتے ہیں وہ بھی اس وعید کی زد میں آتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ اس باب میں توسع کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص دین کو فروغ دینے اور فائدہ پہنچانے کی غرض سے جھوٹی روایت بیان کرتا ہے تو اس کے لیے صرف اجازت ہی نہیں بلکہ یہ ایک مستحسن عمل ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں (كَذَبَ عَلَىَّ) ہے،كَذَبَ کے بعد عَلٰى کاصلہ نقصان کے لیے آتا ہے، اگر نقصان کے بجائے فائدہ پہنچانا مقصود ہوتو چنداں حرج کی بات نہیں۔ لیکن یہ عربی زبان سے ناواقفیت کی علامت ہے کیا انھیں علم نہیں ہے کہ دینی معاملات میں جھوٹ دراصل کذب علی اللہ ہی کی ایک شکل ہے اور اللہ پر جھوٹ بولنا مطلقاً حرام ہے خواہ وہ ترغیب و ترہیب سے متعلق ہو یا اصل احکام دین کے بارے میں یہ حضرات ایک روایت کو بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ ”جس شخص نے گمراہ کرنے کے لیے جھوٹ بولا۔ “ اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر جھوٹ بولنے کا مقصد گمراہی پھیلانا ہے تو اس کے لیے وعید ہے لیکن اگر مقصد گمراہی پھیلانا نہیں تو وعید کا مصداق نہیں ہے۔ یہ استدلال کئی وجوہ سے درست نہیں۔ (1) ۔ محدثین کرام نے اس حدیث بزار کے موصول اور مرسل ہونے میں اختلاف کیا ہے۔ دارقطنی اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے مرسل ہونے ہی کو ترجیح دی ہے اور مرسل روایت قابل حجت نہیں ہے(لِيُضِلَّ) کا لام علت کے لیے نہیں بلکہ عاقبت کے لیے ہے جیسا کہ آیت کریمہ میں ہے: ﴿فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾”اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھاتا کہ لوگوں کو بغیر علم کے گمراہ کرے۔ “(الأنعام: 6/ 144)(2) ۔ اس آیت میں (لِيُضِلَّ) کا لام بھی انجام کار پر تنبیہ کے لیے لایا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ پر افترا کا نتیجہ گمراہی پھیلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں لہٰذا جس طرح اللہ پر جھوٹ باندھنا حرام ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا بھی ناجائز ہے۔ (فتح الباري: 264/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 106