انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ پر چڑھے اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم بھی تو وہ ان کے ساتھ ہل اٹھا، تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ٹھہرا رہ اے احد! تیرے اوپر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید ہیں
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3686
3686. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ ایک مرتبہ اُحد پہاڑ پر چڑھے۔ آپ کے ہمراہ حضرت ابو بکر ؓ، حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ بھی تھے۔ پہاڑلرزنے اور کانپنے لگا تو آپ نے اپنا پاؤں مار کر اسے فرمایا: ”اے اُحد!ٹھہر جا کیونکہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3686]
حدیث حاشیہ:
خلفاء کی فضیلت میں آنحضرت ﷺنے بطور پیشگی فرمایا:
شہیدوں سے حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓمراد ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3686
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3675
3675. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک مرتبہ احد پہاڑ پر چڑھے۔ آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر ؓ، حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ تھے۔ اتنے میں پہاڑ لرز نے اور کانپنے لگا تو آپ نے فرمایا: ”اے اُحد!ٹھہر جا کیونکہ تجھ پر اس وقت ایک نبی ﷺ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3675]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کی یہ معجزانہ پیش گوئی تھی جو اپنے وقت پر پوری ہوئی اور حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ ہر دونے جام شہادت نوش فرمایا۔
مقصود اس سے حضرت ابوبکر ؓ کی فضیلت بیان کرنا ہے، احد پہاڑ کا کانپ اٹھنا برحق ہے جو رسول کریم ﷺ کے ایک معجزہ کے طورپر ظہور میں آیا۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ قدرت کی ہرہر مخلوق اپنی حد کے اندر شعور زندگی رکھتی ہے، سچ ہے:
( ﴿وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ﴾ (بني إسرائیل: 44: 17)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3675
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3675
3675. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک مرتبہ احد پہاڑ پر چڑھے۔ آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر ؓ، حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ تھے۔ اتنے میں پہاڑ لرز نے اور کانپنے لگا تو آپ نے فرمایا: ”اے اُحد!ٹھہر جا کیونکہ تجھ پر اس وقت ایک نبی ﷺ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3675]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے احد پہاڑ پر اپنا پاؤں مارا اور مذکورہ بالا ارشاد فرمایا۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3686)
2۔
رسول اللہ ﷺ کا یہ ایک معجزہ اور پیش گوئی تھی جو اپنے وقت پر حرف بحرف پوری ہوئی،چنانچہ حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ ہردو نے جام شہادت نوش کیا اور حضرت ابوبکر ؓ کو مقام صدیقیت نصیب ہوا۔
3۔
اس حدیث سے حضرت ابوبکر کی فضیلت بیان کرنا مقصود ہے،نیز اُحد پہاڑ کا کانپ اٹھنا بھی بھی برحق ہے جورسول اللہ ﷺ کے ایک معجزے کے طورپر ظہور میں آیا۔
4۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ تمام چیزیں اپنی اپنی حدود میں شعورزندگی سے بہرہ ور ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”ہرچیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے لیکن تم اس کی تسبیح نہیں سمجھتے۔
“ (بني إسرائیل: 44: 17)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3675
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3686
3686. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ ایک مرتبہ اُحد پہاڑ پر چڑھے۔ آپ کے ہمراہ حضرت ابو بکر ؓ، حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ بھی تھے۔ پہاڑلرزنے اور کانپنے لگا تو آپ نے اپنا پاؤں مار کر اسے فرمایا: ”اے اُحد!ٹھہر جا کیونکہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3686]
حدیث حاشیہ:
علمائے سلوک نے لکھاہے:
جب اُحد پہاڑ لرزنے لگا تو رسول اللہ ﷺنے یہ وضاحت کرناضروری خیال کیا کہ پہاڑ کا یہ لرزہ ایسا نہیں جیساکہ کوہ طور قوم موسیٰ کے ساتھ حرکت میں آیاتھا جب انھوں نے اللہ کے کلمات میں تحریف کا ارتکاب کیا تھا۔
اس وقت وہ پہاڑ شدت غضب کی وجہ سے لرزہ تھا جبکہ احد کا لرزہ خوشی اور سرور کی وجہ سے ہے کہ اس پر وہ ہستیاں ہیں جنھیں اللہ پسند کرتا ہے،گویا اُحد پہاڑ خوشی سے جھوم رہا تھا اور زبانِ حال سے یہ کہہ رہا تھا:
پہاڑو! تم پر پتھر ہیں،مجھ پر پیغمبر ہے۔
تم پر درخت ہیں،مجھ پر آمنہ کے جگر کا لخت ہیں۔
تم پر مکان ہیں اور مجھ نبی آخر الزمان ہیں،اس لیے جب رسول اللہ ﷺنے اسے ٹھہر جانے کا حکم دیا تو وہ ٹھہر گیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3686
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3697
3697. عربی متن اور ترجمے میں مطابقت نہیں ہے۔ حضرت عثمان ؓ بن مواہب سے روایت ہے کہ اہل مصر سے ایک شخص آیا، اس نے بیت اللہ کا حج کیا تو لوگوں کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا۔ پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟لوگوں نے کہا: یہ قریش کے لوگ ہیں۔ اس نے پوچھا: ان میں یہ بزرگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ مصری نے کہا: اے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ!میں آپ سے چند باتوں کی وضاحت چاہتا ہوں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُحد کے دن میدان سے بھاگ نکلے تھے؟انھوں نے فرمایا کہ ہاں (مجھے اس بات کا علم ہے۔)پھر اس نے کہا: کیاآپ جانتے ہیں کہ وہ جنگ بدر سے بھی غائب تھے؟حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہاں (مجھے اس کا بھی علم ہے) اس نے کہا: کیا آپ اس سے آگاہ ہیں کہ وہ بیعت رضوان سے بھی غائب تھے اور اس میں شریک نہ ہوئے تھے؟انھوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3697]
حدیث حاشیہ:
1۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حضرات شیخین حضرت ابو بکر ؓ و حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عثمان ؓ کو دوسرے صحابہ پر فضیلت دینے کے بعد باقی صحابہ میں سے کسی کو ایک دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے تھے۔
جب فضیلت دینے میں اجتہاد کرتے تو انھی تینوں حضرات کے فضائل نمایاں ہوتے۔
2۔
غالباً اس سے مراد وہ بزرگ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں جن سے اہم امور میں رسول اللہ ﷺ مشورہ لیتے تھے اس وقت حضرت علی ؓ کی عمر کم تھی ابھی مقام شیخو خت کو نہ پہنچے تھے اس سے حضرت علی ؓ کی تحقیر یا حضرت عثمان ؓ کے بعد فضیلت میں تاخیر قطعاً مراد نہیں بلکہ اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ خلفائے ثلاثہ کے بعد حضرت علی ؓ افضل ہیں پھر باقی چھ مبشرہ بعد ازاں شرکائے بدر و اُحد ان کے بعد بیعت رضوان کرنے والے اس حدیث میں مذکورہ تاویل بہت ضروری ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3697