(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا عبد الحميد بن عمر الهلالي، عن سعيد بن إياس الجريري، عن ابي السليل، عن ابي هريرة، ان رجلا، قال: يا رسول الله، سمعت دعاءك الليلة فكان الذي وصل إلي منه انك تقول: " اللهم اغفر لي ذنبي، ووسع لي في رزقي، وبارك لي فيما رزقتني، قال: فهل تراهن تركن شيئا ". قال ابو عيسى: وهذا حديث غريب، وابو السليل اسمه ضريب بن نفير ويقال: ابن نقير.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ عُمَرَ الْهِلَالِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي السَّلِيلِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِعْتُ دُعَاءَكَ اللَّيْلَةَ فَكَانَ الَّذِي وَصَلَ إِلَيَّ مِنْهُ أَنَّكَ تَقُولُ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، وَوَسِّعْ لِي فِي رِزْقِي، وَبَارِكْ لِي فِيمَا رَزَقْتَنِي، قَالَ: فَهَلْ تَرَاهُنَّ تَرَكْنَ شَيْئًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو السَّلِيلِ اسْمُهُ ضُرَيْبُ بْنُ نُفَيْرٍ وَيُقَالُ: ابْنُ نُقَيْرِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے آج رات آپ کی دعا سنی، میں نے آپ کی جو دعا سنی وہ یہ تھی: «اللهم اغفر لي ذنبي ووسع لي في داري وبارك لي فيما رزقتني»”اے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور میرے گھر میں کشادگی دے، اور میرے رزق میں برکت دے“، آپ نے فرمایا: ”کیا ان دعائیہ کلمات نے کچھ چھوڑا؟ (یعنی ان میں دین دنیا کی سبھی بھلائیاں آ گئی ہیں)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13512) (ضعیف) (دعا کا حصہ حسن ہے، بقیہ ضعیف، سند میں راوی ”سعید بن ایاس جریری“ مختلط ہو گئے تھے، اور ”عبد الحمید الھلالی“ بہت غلطیاں کرتے تھے، مگر نفس اس دعاء کے الفاظ ابوموسیٰ رضی الله عنہ کی روایت سے تقویت پا کر دعا کا ٹکڑا حسن ہے، ملاحظہ ہو: غایة المرام رقم 112)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن الدعاء حسن، الروض النضير (1167)، غاية المرام (112)
قال الشيخ زبير على زئي: (3500) إسناده ضعيف الجريري اختلط (تقدم:2058)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3500
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور میرے گھر میں کشادگی دے، اور میرے رزق میں برکت دے۔
نوٹ: دعا کا حصہ حسن ہے، بقیہ ضعیف، سند میں راوی ”سعید بن ایاس جریری“ مختلط ہو گئے تھے، اور ”عبد الحمید الھلالی“ بہت غلطیاں کرتے تھے، مگر نفسِ اس دعا کے الفاظ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی روایت سے تقویت پا کردعا کا ٹکڑا حسن ہے، ملاحظہ ہو: (غایة المرام رقم: 112)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3500