علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 165
´شرائط نماز کا بیان`
«. . . وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ما بين المشرق والمغرب قبلة . . .»
”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشرق اور مغرب کے مابین قبلہ ہے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب شــروط الصلاة: 165]
� لغوی تشریح:
«مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ» یہ اہل مدینہ اور اسی سمت پر واقع دوسرے لوگوں کے لیے ہے، اس لیے کہ مدینہ، مکہ کے شمال میں واقع ہے۔ جب مدینے والے اپنا رخ جنوب کی جانب کرتے ہیں تو اس صورت میں مغرب ان کے دائیں طرف اور مشرق بائیں طرف پڑتا ہے، لہٰذا ان کا قبلہ ان دونوں سمتوں کے درمیان ہوا۔ مقصد یہ ہے کہ جب نمازی قبلے سے دور دراز فاصلے پر ہو تو اس کے لیے عین قبلہ رخ ہونا لازمی نہیں کیونکہ ایسا اس کے لیے بڑا مشکل اور دشوار ہے۔ بس اس کے لیے ادھر اپنا چہرہ اور رخ کرنا کافی ہے۔ دیگر شہروں کے لیے بھی یہ وسعت اسی طرح ہے جس طرح اہل مدینہ کے لیے ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 165