مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1011
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ عین جنوب میں واقع ہے۔ اس لئے اہل مدینہ کےلئے سمت قبلہ کا تعین مشکل نہیں۔ دوسرے شہروں کے مسلمان اپنے اپنے شہروں کی نسبت سے نماز ادا کرتے ہیں۔ کیونکہ مختلف شہروں سے کعبہ شریف کی سمت مختلف ہے۔
(2) جو شخص مسجد حرام میں نماز ادا کررہا ہو۔ وہ کعبہ شریف کی عمارت کودیکھ کر عین اس کی طرف منہ کرسکتا ہے۔ لیکن دور کے لوگ اس بات کے مکلف نہیں کہ عین عمارت کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں۔ ان کے لئے اندازے سے سمت قبلہ کا تعین کر لینا ہی کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾(البقرۃ: 286) ”اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کام کرنے کا پابند نہیں کرتا۔“
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1011
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 165
´شرائط نماز کا بیان` «. . . وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ما بين المشرق والمغرب قبلة . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشرق اور مغرب کے مابین قبلہ ہے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب شــروط الصلاة: 165]
� لغوی تشریح: «مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ» یہ اہل مدینہ اور اسی سمت پر واقع دوسرے لوگوں کے لیے ہے، اس لیے کہ مدینہ، مکہ کے شمال میں واقع ہے۔ جب مدینے والے اپنا رخ جنوب کی جانب کرتے ہیں تو اس صورت میں مغرب ان کے دائیں طرف اور مشرق بائیں طرف پڑتا ہے، لہٰذا ان کا قبلہ ان دونوں سمتوں کے درمیان ہوا۔ مقصد یہ ہے کہ جب نمازی قبلے سے دور دراز فاصلے پر ہو تو اس کے لیے عین قبلہ رخ ہونا لازمی نہیں کیونکہ ایسا اس کے لیے بڑا مشکل اور دشوار ہے۔ بس اس کے لیے ادھر اپنا چہرہ اور رخ کرنا کافی ہے۔ دیگر شہروں کے لیے بھی یہ وسعت اسی طرح ہے جس طرح اہل مدینہ کے لیے ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 165
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 342
´مشرق اور مغرب کے درمیان میں جو ہے سب قبلہ ہے۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مشرق (پورب) اور مغرب (پچھم) کے درمیان جو ہے سب قبلہ ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 342]
اردو حاشہ: 1؎: یہ ان ملکوں کے لیے ہے جو قبلے کے شمال (اُتر) یا جنوب (دکھن) میں واقع ہیں، جیسے مدینہ (شمال میں) اور یمن (جنوب میں) اور برصغیر ہند و پاک یا مصر وغیرہ کے لوگوں کے لیے اسی کو یوں کہا جائیگا ”شمال اور جنوب کے درمیان جو فضا کا حصہ ہے وہ سب قبلہ ہے“ یعنی اپنے ملک کے قبلے کی سمت میں ذرا سا ٹیڑھا کھڑا ہو نے میں (جو جان بوجھ کر نہ ہو) کوئی حرج نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 342
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 344
´مشرق اور مغرب کے درمیان میں جو ہے سب قبلہ ہے۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مشرق (پورب) اور مغرب (پچھم) کے درمیان جو ہے وہ سب قبلہ ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 344]
اردو حاشہ: 1؎: یہاں مشرق سے مراد وہ ممالک ہیں جن پر مشرق کا اطلاق ہوتا ہے جیسے عراق۔
2؎: قاموس میں ہے کہ مرو ایران کا ایک شہر ہے اور علامہ محمد طاہر مغنی میں کہتے ہیں کہ یہ خراسان کا ایک شہر ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 344