(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن بزيع، حدثنا عبد الوارث بن سعيد، عن عمرو بن دينار مولى آل الزبير، عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن ابن عمر، عن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من راى صاحب بلاء، فقال: الحمد لله الذي عافاني مما ابتلاك به، وفضلني على كثير ممن خلق تفضيلا، إلا عوفي من ذلك البلاء كائنا ما كان ما عاش ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وفي الباب، عن ابي هريرة، وعمرو بن دينار قهرمان آل الزبير هو شيخ بصري وليس هو بالقوي في الحديث، وقد تفرد باحاديث عن سالم بن عبد الله بن عمر، وقد روي عن ابي جعفر محمد بن علي، انه قال: إذا راى صاحب بلاء فتعوذ منه يقول ذلك في نفسه ولا يسمع صاحب البلاء.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ مَوْلَى آلِ الزُّبَيْرِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ رَأَى صَاحِبَ بَلَاءٍ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ بِهِ، وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلًا، إِلَّا عُوفِيَ مِنْ ذَلِكَ الْبَلَاءِ كَائِنًا مَا كَانَ مَا عَاشَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَهْرَمَانِ آلِ الزُّبَيْرِ هُوَ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ، وَقَدْ تَفَرَّدَ بِأَحَادِيثَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، أَنَّهُ قَالَ: إِذَا رَأَى صَاحِبَ بَلَاءٍ فَتَعَوَّذَ مِنْهُ يَقُولُ ذَلِكَ فِي نَفْسِهِ وَلَا يُسْمِعُ صَاحِبَ الْبَلَاءِ.
عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مصیبت میں گرفتار کسی شخص کو دیکھے اور کہے: «الحمد لله الذي عافاني مما ابتلاك به وفضلني على كثير ممن خلق تفضيلا»”سب تعریف اللہ کے لیے ہے کہ جس نے مجھے اس بلا و مصیبت سے بچایا جس سے تجھے دوچار کیا، اور مجھے فضیلت دی، اپنی بہت سی مخلوقات پر“، تو وہ زندگی بھر ہر بلا و مصیبت سے محفوظ رہے گا خواہ وہ کیسی ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اور عمرو بن دینار آل زبیر کے خزانچی ہیں اور بصریٰ شیخ ہیں اور حدیث میں زیادہ قوی نہیں ہیں، اور یہ سالم بن عبداللہ بن عمر سے کئی احادیث کی روایت میں منفرد ہیں، ۳- ابو جعفر محمد بن علی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب آدمی کسی کو مصیبت میں گرفتار دیکھے تو اس بلا سے آہستہ سے پناہ مانگے مصیبت زدہ شخص کو نہ سنائے، ۴- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الدعاء 22 (3892) (تحفة الأشراف: 10532) (حسن) (سند میں عمرو بن دینار قھر مان آل زبیر ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، دیکھیے اگلی حدیث)»
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (3892)
قال الشيخ زبير على زئي: (3431) إسناده ضعيف / جه 3892 عمرو بن دينار قهرمان آل الزبير ضعيف (تقدم:3429) وللحديث شواهد ضعيفة . و روي البزار(البحر الزخار 185/12 ح5838) بسند حسن عن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”من رأي مصابًا فقال: الحمد لله الذى عافاني مما ابتلاك به وفضلني على كثير ممن خلق تفصيلاً . لم يصبه ذلك البلاء أبدًا .“ و رواه الطبراني فى الاوسط (5320) وحسنة ابن القطان الفاسي فى أحكام النظر (ص421)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3892
´مصیبت زدہ کو دیکھ کر کیا دعا پڑھے؟` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص اچانک کسی کو بلایا مصیبت میں مبتلا دیکھے تو یہ دعا پڑھے: «الحمد لله الذي عافاني مما ابتلاك به وفضلني على كثير ممن خلق تفضيلا»”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے عافیت دی اس چیز سے جس میں تجھ کو مبتلا کیا، اور مجھے اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت بخشی“، تو وہ اس بلا اور مصیبت سے محفوظ رہے گا، چاہے کوئی بھی بلا اور مصیبت ہو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3892]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ شیخ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ اس پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے اس کے شواہد کا تذکرہ کیا ہے۔ جس سے شیخ البانی ہی کی رائے اقرب الصواب معلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کےلئے دیکھئے۔ (سلسلة الأحادیث الصحیة للأبانی، رقم 602، 2737)
(2) مصیبت زدہ کو دیکھ کر اپنی عافیت کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ لہذا اللہ کے اس احسان پر اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
(3) مصیبت زدہ کو دیکھ کر یہ دعا آہستہ پڑھنی چاہیے۔ تاکہ وہ سن نہ لے ورنہ اسے رنج ہوگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3892