ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اس دوران کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ بیٹھے ہوئے تھے، ان پر ایک بدلی آئی، نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
”کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟
“ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا:
”یہ بادل ہے اور یہ زمین کے گوشے و کنارے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس بادل کو ایک ایسی قوم کے پاس ہانک کر لے جا رہا ہے جو اس کی شکر گزار نہیں ہے اور نہ ہی اس کو پکارتے ہیں
“، پھر آپ نے فرمایا:
”کیا تم جانتے ہو تمہارے اوپر کیا ہے؟
“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا:
”یہ آسمان
«رقیع» ہے، ایسی چھت ہے جو
(جنوں سے) محفوظ کر دی گئی ہے، ایک ایسی
(لہر) ہے جو
(بغیر ستون کے) روکی ہوئی ہے
“، پھر آپ نے پوچھا:
”کیا تم جانتے ہو کہ کتنا فاصلہ ہے تمہارے اور اس کے درمیان؟
“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا:
”تمہارے اور اس کے درمیان پانچ سو سال مسافت کی دوری ہے
“، پھر آپ نے پوچھا:
”کیا تمہیں معلوم ہے اور اس سے اوپر کیا ہے؟
“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے، آپ نے فرمایا:
”اس کے اوپر دو آسمان ہیں جن کے بیچ میں پانچ سو سال کی مسافت ہے
“۔ ایسے ہی آپ نے سات آسمان گنائے، اور ہر دو آسمان کے درمیان وہی فاصلہ ہے جو آسمان و زمین کے درمیان ہے، پھر آپ نے پوچھا:
”اور اس کے اوپر کیا ہے؟
“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، اور اس کے رسول آپ نے فرمایا:
”اس کے اوپر عرش ہے، عرش اور آسمان کے درمیان اتنی دوری ہے جتنی دوری دو آسمانوں کے درمیان ہے
“، آپ نے پوچھا:
”کیا تم جانتے ہو تمہارے نیچے کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں: آپ نے فرمایا:
”یہ زمین ہے
“، آپ نے فرمایا:
”کیا تم جانتے ہو اس کے نیچے کیا ہے؟
“، لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا:
”اس کے نیچے دوسری زمین ہے، ان دونوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت کی دوری ہے
“، اس طرح آپ نے سات زمینیں شمار کیں، اور ہر زمین کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت کی دوری بتائی، پھر آپ نے فرمایا:
”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر تم کوئی رسی زمین کی نچلی سطح تک لٹکاؤ تو وہ اللہ ہی تک پہنچے گی، پھر آپ نے آیت
«هو الأول والآخر والظاهر والباطن وهو بكل شيء عليم» ”وہی اول و آخر ہے وہی ظاہر و باطن ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے
“ (الحدید: ۳)، پڑھی
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،
۲- ایوب، یونس بن عبید اور علی بن زید سے مروی ہے، ان لوگوں نے کہا ہے کہ حسن بصری نے ابوہریرہ سے نہیں سنا ہے،
۳- بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: مراد یہ ہے کہ وہ رسی اللہ کے علم پر اتری ہے، اور اللہ اور اس کی قدرت و حکومت ہر جگہ ہے اور جیسا کہ اس نے اپنی کتاب
(قرآن مجید) میں اپنے متعلق بتایا ہے وہ عرش پر مستوی ہے۔