انس ابن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے پاس آ کر کہا:
«السام عليكم» (تم پر موت آئے) لوگوں نے اسے اس کے
«سام» کا جواب دیا، نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا:
”کیا تم جانتے ہو اس نے کیا کہا ہے؟
“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں، اے اللہ کے نبی! اس نے تو سلام کیا ہے، آپ نے فرمایا:
”نہیں، بلکہ اس نے تو ایسا ایسا کہا ہے، تم لوگ اس
(یہودی) کو لوٹا کر میرے پاس لاؤ
“، لوگ اس کو لوٹا کر لائے، آپ نے اس یہودی سے پوچھا: تو نے
«السام عليكم» کہا ہے؟ اس نے کہا: ہاں، نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت سے یہ حکم صادر فرمایا دیا کہ جب اہل کتاب میں سے کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس کے جواب میں
«عليك ما قلت» (جو تم نے کہی وہی تمہارے لیے بھی ہے) کہہ دیا کرو، اور آپ نے یہ آیت پڑھی
«وإذا جاءوك حيوك بما لم يحيك به الله» ”یہ یہودی جب تمہارے پاس آتے ہیں تو وہ تمہیں اس طرح سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے تمہیں سلام نہیں کیا ہے
“ (المجادلہ: ۸)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5207
´اہل ذمہ (معاہد کافروں) کو سلام کرنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے آپ سے عرض کیا: اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) ہم کو سلام کرتے ہیں ہم انہیں کس طرح جواب دیں؟ آپ نے فرمایا: ”تم لوگ «وعليكم» کہہ دیا کرو“ ابوداؤد کہتے ہیں: ایسے ہی عائشہ، ابوعبدالرحمٰن جہنی اور ابوبصرہ غفاری کی روایتیں بھی ہیں۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5207]
فوائد ومسائل:
دیگر بعض احادیث میں کفار کے سلام کے جواب صرف علیکم آیا ہے، یعنی واو کےبغیر۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5207
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6258
6258. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب اہل کتاب تمہیں سلام کہیں تو تم اس کے جواب میں صرف ''وعلیکم'' کہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6258]
حدیث حاشیہ:
یہ بھی ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے جب کہ یہودی نے صاف لفظوں میں بد دعا کے الفاظ سلام کی جگہ استعمال کئے تھے۔
آج کے دور میں غیر مسلم اگر کوئی اچھے لفظوں میں دعا سلام کرتا ہے تو اس کا جواب بھی اچھا ہی دینا چاہئے ﴿وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا﴾ میں عام حکم ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6258
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6258
6258. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب اہل کتاب تمہیں سلام کہیں تو تم اس کے جواب میں صرف ''وعلیکم'' کہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6258]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض دیگر احادیث میں کفار کے سلام کے جواب میں صرف "علیکم" آیا ہے، یعنی واؤ کے بغیر۔
بعض اہل علم نے واؤ عاطفہ اور اس کے بغیر سلام کا جواب دینے میں نکتہ آفرینی کی ہے، تاہم دونوں طرح صحیح ہے اور روایات اس کی تائید کرتی ہیں۔
بعض اوقات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سلام کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ انداز اختیار کیا ہے جیسا کہ مسيء الصلاة نے جب آپ کو سلام کیا تو آپ نے"وعلیك" کہا تھا۔
(جامع الترمذي، الاستئذان، حدیث: 2692) (2)
اب یہ انداز اہل کتاب کو جواب دینے کے لیے مشہور ہوچکا ہے، اس لیے مسلمان کے جواب میں اس انداز کو اختیار نہیں کرنا چاہیے،چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
"ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ اہل کتاب کے سلام کے جواب میں "وعلیکم" کے الفاظ پر کسی چیز کا اضافہ نہ کریں۔
(مسند أحمد: 113/3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نےبھی اس امر کو بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 56/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6258
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6926
6926. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: تم پر ہلاکت ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے (اس کے جواب میں) فرمایا: ”تجھ پر بھی“ پھر رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ کرام سے) پوچھا: ”تمہیں معلوم ہے کہ اس نے کیا کہا تھا؟ اس نے السام علیك کہا تھا۔“ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! اسے ہم قتل نہ کر دیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں جب تمہیں اہل کتاب سلام کہیں تو تم جواب میں یہ کہہ دیا کرو، وعلیکم ”تم پر بھی ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6926]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ جب کوئی ذمی یا معاہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اعلانیہ سب وشتم نہ کرے بلکہ اشارے کنائے کے ذریعے سے اپنے دل کی بھڑاس نکالتا رہے تو اسے قتل نہ کیا جائے جیسا کہ اس حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ یہودی کے متعلق قتل کرنے کی اجازت نہیں دی۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ یہودی کو تالیف قلب کی مصلحت کی بنا پر قتل نہیں کیا یا اس لیے کہ واضح طور پر اس نے سب وشتم نہیں کیا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دونوں وجوہات ہوں اور یہی زیادہ بہتر ہے۔
(فتح الباري: 352/12)
اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واضح طور پر برا بھلا کہے تو ایسے شخص کے قتل پر اجماع ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی کی ام ولد لونڈی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی اور آپ کی شان میں گستاخی کی مرتکب ہوتی تھی، ایک دن جب وہ اپنے آقا کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے رہی تھیں تو انھوں نے اسے قتل کر دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب علم ہوا تو آپ نے اعلانیہ طور پر فرمایا:
”خبردار! گواہ ہو جاؤ کہ اس لونڈی کا خون رائیگاں اور ضائع ہے۔
“ (سنن أبي داود، الحدود، حدیث: 4361)
جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ثابت ہے تو جو بدبخت شخص اللہ تعالیٰ، اس کی کتاب، اسلام یا سنت مطہرہ اور دین اسلام میں طعن کرے تو اسے قتل کرنا بالاولیٰ لازم ہے۔
یہ ایسی حقیقت ہے کہ اس پر مزید دلائل کی ضرورت نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6926