(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمروابو عمار الحسين بن حريث، قالا: حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن عمرو بن يحيى، عن ابيه، عن ابي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الارض كلها مسجد إلا المقبرة والحمام ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن علي، وعبد الله بن عمر، وابي هريرة , وجابر , وابن عباس , وحذيفة , وانس , وابي امامة , وابي ذر، قالوا: إن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " جعلت لي الارض مسجدا وطهورا ". قال ابو عيسى: حديث ابي سعيد قد روي عن عبد العزيز بن محمد روايتين، منهم من ذكره عن ابي سعيد، ومنهم من لم يذكره، وهذا حديث فيه اضطراب. روى سفيان الثوري، عن عمرو بن يحيى، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسل، ورواه حماد بن سلمة، عن عمرو بن يحيى، عن ابيه، عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ورواه محمد بن إسحاق، عن عمرو بن يحيى، عن ابيه، قال: وكان عامة روايته عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يذكر فيه عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وكان رواية الثوري، عن عمرو بن يحيى، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، اثبت واصح مرسلا.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَوَأَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْأَرْضُ كُلُّهَا مَسْجِدٌ إِلَّا الْمَقْبَرَةَ وَالْحَمَّامَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَجَابِرٍ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَحُذَيْفَةَ , وَأَنَسٍ , وَأَبِي أُمَامَةَ , وَأَبِي ذَرٍّ، قَالُوا: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ قَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ رِوَايَتَيْنِ، مِنْهُمْ مَنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ يَذْكُرْهُ، وَهَذَا حَدِيثٌ فِيهِ اضْطِرَابٌ. رَوَى سفيان الثوري، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلٌ، وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: وَكَانَ عَامَّةُ رِوَايَتِهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَأَنَّ رِوَايَةَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَثْبَتُ وَأَصَحُّ مُرْسَلًا.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوائے قبرستان اور حمام (غسل خانہ) کے ساری زمین مسجد ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی عبداللہ بن عمرو، ابوہریرہ، جابر، ابن عباس، حذیفہ، انس، ابوامامہ اور ابوذر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ان لوگوں نے کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے پوری زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور طہارت و پاکیزگی کا ذریعہ بنائی گئی ہے، ۲- ابوسعید رضی الله عنہ کی حدیث عبدالعزیز بن محمد سے دو طریق سے مروی ہے، بعض لوگوں نے ابوسعید کے واسطے کا ذکر کیا ہے اور بعض نے نہیں کیا ہے، اس حدیث میں اضطراب ہے، سفیان ثوری نے بطریق: «عمرو بن يحيى عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرسلاً روایت کی ہے۔ اور حماد بن سلمہ نے یہ حدیث بطریق: «عمرو بن يحيى عن أبيه عن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرفوعاً روایت کی ہے۔ اور محمد بن اسحاق نے بھی یہ حدیث بطریق: «عمرو بن يحيى عن أبيه» اور ان کا کہنا ہے کہ یحییٰ کی اکثر احادیث آئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابوسعید ہی کے واسطہ سے مروی ہیں، لیکن اس میں انہوں نے ابوسعید کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، گویا ثوری کی روایت «عمرو بن يحيى عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» زیادہ ثابت اور زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جہاں چاہو نماز پڑھو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبرستان اور حمام میں نماز پڑھنی درست نہیں، حمام میں اس لیے کہ یہاں نجاست ناپاکی کا شک رہتا ہے اور قبرستان میں ممانعت کا سبب شرک سے بچنے کے لیے سد باب کے طور پر ہے۔ بعض احادیث میں کچھ دیگر مقامات پر نماز ادا کرنے سے متعلق بھی ممانعت آئی ہے، ان کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 24 (492)، سنن ابن ماجہ/المساجد 4 (745)، (تحفة الأشراف: 4406)، مسند احمد (3/8، 96) (صحیح)»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 317
اردو حاشہ: 1؎: یعنی جہا ں چاہو نماز پڑھو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبرستان اور حمام میں نماز پڑھنی درست نہیں، حمام میں اس لیے کہ یہاں نجاست نا پاکی کا شک رہتا ہے اور قبرستان میں ممانعت کا سبب شرک سے بچنے کے لیے سد باب کے طور پر ہے۔ بعض احادیث میں کچھ دیگر مقامات پر نماز ادا کرنے سے متعلق بھی ممانعت آئی ہے، ان کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 317
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 167
´قبرستان اور حمام میں نماز درست نہیں` «. . . وعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: الارض كلها مسجد إلا المقبرة والحمام . . .» ”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قبرستان اور حمام کے ماسوا ساری زمین مسجد ہے (جہاں چاہے نماز پڑھ لے)۔ . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 167]
� لغوی تشریح: «وَلَه عِلَّةٌ»”اور اس میں ایک علت ہے۔“ وہ علت یہ ہے کہ حماد نے اسے موصول روایت کیا ہے جبکہ امام ثوری رحمہ اللہ نے اسے مرسل روایت کیا ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ اور بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث مرسل سند ہی سے محفوظ ہے۔ لیکن بعض حضرات نے اس کا موصول ہونا صحیح قرار دیا ہے اور یہی راجح ہے۔ اس کی تائید دیگر احادیث سے بھی ہوتی ہے۔
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبرستان اور حمام میں نماز درست نہیں۔ حمام میں اس لیے کہ وہ جگہ ناپاک ہے اور قبرستان میں ممانعت کا سبب سد ذرائع کے طور پر شرک سے بچنے کے لیے ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 167
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 492
´ان جگہوں کا بیان جہاں پر نماز ناجائز ہے۔` ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور موسیٰ (موسیٰ بن اسمٰعیل) نے اپنی روایت میں کہا، عمرو (عمرو بن یحییٰ) کا خیال ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا): ”ساری زمین نماز پڑھنے کی جگہ ہے، سوائے حمام (غسل خانہ) اور قبرستان کے۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 492]
492۔ اردو حاشیہ: ➊ مذکورہ سندوں میں سے روایت مسدد یقینی طور پر مرفوع ہے۔ مگر عمرو بن یحیٰی کی روایت میں گمان ہے۔ یقین نہیں۔ محدثین کرام فرامین رسول کے نقل کرنے میں بہت ہی حساس اور محتاط واقع ہوئے تھے۔ ➋ قاضی ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ مقامات جہاں نماز نہیں پڑھی جاتی، تیرہ ہیں۔ کوڑے کرکٹ کا ڈھیر، ذبح خانہ، مقبرہ، راستے کے درمیان، حمام، اونٹوں کا باڑا، بیت اللہ کی چھت، قبرستان کے رخ پر، بیت الخلاء کی دیوار کی طرف جب کہ اس کی طرف نجاست لگی ہو، یہودیوں اور عیسایؤں کے عبادت خانے، بتوں اور تصویروں کی طرف رخ کر کے، مقام عذاب اور عراقی نے مزید اضافہ کیا کہ غصب شدہ زمین پر، مسجد ضرار اور وہ جگہ جہاں تنور سامنے ہو تفصیل کے لئے دیکھیں: [نيل الأوطار، باب المواضع المنهي عنها والمازون فيها لصلوة 55/2]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 492
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث745
´جن جگہوں پر نماز مکروہ ہے ان کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قبرستان اور حمام (غسل خانہ) کے سوا ساری زمین مسجد ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 745]
اردو حاشہ: (1) جہاں قبر سامنے ہو وہاں نماز پڑھنے سے منع ہونے میں یہ حکمت ہے کہ ظاہری طور پر قبر کو سجدہ کی صورت نہ بنے۔ اگرچہ ارادہ قبر یا صاحب قبر کو سجدہ کرنے کا نہ ہو۔ نماز جنازہ میں بھی رکوع اور سجدہ مقرر نہیں کیا گیا کیونکہ میت سامنے ہوتی ہےتاکہ ظاہری طور پر بھی سجدہ کی صورت نہ بن جائے اسی وجہ سےجو شخص کسی کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکا وہ بعد میں اس کی قبر پر جنازہ پڑھ سکتا ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجه، حديث: 1533، 1527)
(2) بعض لوگ کسی نبی یا ولی کی قبر کے پاس مسجد بنا لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مدفون ہستی کی برکات کی وجہ سے یہاں نماز پڑھنا افضل ہے حالانکہ یہ بھی شرعاً منع ہے اگرچہ نماز پڑھتے وقت قبر سامنے نہ بھی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بزرگوں اور انبیاء کی قبروں پر عبادت گاہیں بنانا یہود و نصاری کی عادت ہے۔ رسول اللہ ﷺنے اس سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ”اللہ کی لعنت ہو یہودونصاری پر جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔“(صحيح البخاري، الصلوة، حديث: 436، 435) وصحيح مسلم، المساجد، باب النهي عن بناءالمساجد علي القبور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، حديث: 529)
(3) بعض لوگ مسجد میں قبر کے جواز کے لیے یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ حطیم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر ہے حالانکہ وہ کعبہ کا حصہ ہے۔ اسی طرح مسجد نبوی میں نبی اکرم ﷺ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ کی قبریں ہیں۔ یہ دلیل اس لیے درست نہیں کہ حطیم میں اگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر ہونا ثابت بھی ہو تو اس کا نشان مٹ چکا ہے لہذا وہ قبر کے حکم میں نہیں رہی۔ اور نبی اکرم ﷺ اور شیخین رضی اللہ عنہ کی قبریں مسجد نبوی سے باہر بنائی گئی تھیں۔ ان کو مسجد میں شامل کرنے کا حکم نہ اللہ نے دیا نہ اس کے رسول ﷺ نے نہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا۔ بعد کے زمانوں کے غلط کام کسی شرعی مسئلہ کی دلیل نہیں بن سکتے۔ ویسے بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا حجرہ مبارکہ جس میں یہ قبریں موجود ہیں چاروں طرف سے بند ہے وہاں جانا ممکن نہیں اس طرح گویا انھیں مسجد سے الگ کردیا گیا ہے۔ اس کے باوجود محتاط علمائے کرام یہی کہتے ہیں کہ اگر دور حاضر کے حکام اس حصے کو دیوار کے ذریعے مسجد سے الگ کردیتے جہاں آنے جانے کا راستہ بالکل الگ ہوتا تو یہ بہت بہتر ہوتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 745