(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا إبراهيم بن يزيد، قال: سمعت محمد بن عباد بن جعفر المخزومي يحدث، عن ابن عمر، قال: قام رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: من الحاج يا رسول الله؟ قال: " الشعث التفل "، فقام رجل آخر، فقال: اي الحج افضل يا رسول الله؟ قال: " العج والثج "، فقام رجل آخر، فقال: ما السبيل يا رسول الله؟ قال: " الزاد والراحلة "، قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه من حديث ابن عمر إلا من حديث إبراهيم بن يزيد الخوزي المكي، وقد تكلم بعض اهل الحديث في إبراهيم بن يزيد من قبل حفظه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَزِيدَ، قَال: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمَخْزُومِيَّ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنِ الْحَاجُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " الشَّعِثُ التَّفِلُ "، فَقَامَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: أَيُّ الْحَجِّ أَفْضَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " الْعَجُّ وَالثَّجُّ "، فَقَامَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: مَا السَّبِيلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ الْخُوزِيِّ الْمَكِّيِّ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! (واقعی) حاجی کون ہے؟۔ آپ نے فرمایا: ”وہ حاجی جس کا سر گردوغبار سے اٹ گیا ہو جس نے زیب و زینت اور خوشبو چھوڑ دی ہو، جس کے بدن سے بو آنے لگی ہو“ پھر ایک دوسرے شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا: کون سا حج سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ حج جس میں لبیک بآواز بلند پکارا جائے، اور ہدی اور قربانی کے جانوروں کا (خوب خوب) خون بہایا جائے“۔ ایک اور شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! ( «من استطاع سبیلاً» میں) «سبیل» سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: ”زاد راہ (توشہ) اور سواری“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عمر رضی الله عنہما کی اس حدیث کو ہم نہیں جانتے سوائے ابراہیم بن یزید خوزی مکی کی روایت سے، اور بعض محدثین نے ابراہیم بن یزید کے بارے میں ان کے حافظہ کے تعلق سے کلام کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 813 (ضعیف جدا) (سند میں ابراہیم بن یزید خوزی سخت ضعیف ہے، لیکن العج والثج کا جملہ ابن ماجہ کی ایک حدیث سے ثابت ہے سنن ابن ماجہ: 2896)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، لكن جملة " العج والثج " ثبتت في حديث آخر، ابن ماجة (2896)، صحيح ابن ماجة برقم (2341)، ضعيف ابن ماجة (631)، الإرواء (988)
قال الشيخ زبير على زئي: (2998) ضعيف/ جه 2896، (تقدم 813) إبراھيم الخوزي: متروك الحديث (تقدم:813) وللحديث شواھد ضعيفة
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 582
´حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان` سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ! ”سبیل“ سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”راستے کا خرچ اور سواری۔“ اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے مگر راجح اس کا مرسل ہونا ہے اور ترمذی نے اسے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں کمزوری ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 582]
582 لغوی تشریح: «مَا السَّبِيلَ» سبیل کیا ہے؟ یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جو وجوب حج کے لیے سبیل کو شرط قرار دیا ہے، یہ سبیل کیا ہے؟ جس کا حکم سورہ آل عمران میں آتا ہے کہ «وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا»[3-آل عمران:97] «اَلزَّادُ والرَّاحِلَةُ» «راحله» سے مراد سواری ہے، خواہ وہ جانور ہو، موٹر کار ہو، بحری جہاز ہو یا ہوائی جہاز۔ اور «الزاد» سے روانگی سے لے کر واپسی تک اہل و عیال کے ضروری خرچ سے زائد مال مراد ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 582
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2896
´حج کو کون سی چیز واجب کر دیتی ہے؟` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑا ہوا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سی چیز حج کو واجب کر دیتی ہے،؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”زاد سفر اور سواری (کا انتظام)“ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! حاجی کیسا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پراگندہ سر اور خوشبو سے عاری“ ایک دوسرا شخص اٹھا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حج کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «عج» اور «ثج» ۔“ وکیع کہتے ہیں کہ «عج» کا مطلب ہے لبیک پکارنا، اور «ثج» کا مطلب ہے خون بہانا یعنی قربا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2896]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ لبیک بلند آواز سے پڑھنا اور قربانی کرنا حج کے اہم اعمال ہیں۔ لبیک سے بندے کی عمودیت اور تعمیل حکم کے جذبے کا اظہار ہوتا ہےاور قربانی سے اللہ کی راہ میں تن من دھن قربان کردینے کا جذبہ ظاہر ہوتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2896
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 813
´سفر کے خرچ اور سواری ہونے سے حج کے واجب ہو جانے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر پوچھا: اللہ کے رسول! کیا چیز حج واجب کرتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”سفر خرچ اور سواری۔“[سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 813]
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں ”ابراہیم بن یزید الخوزی“ متروک الحدیث راوی ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 813