(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، حدثنا عبد الله، اخبرنا شعبة، عن الحكم، عن ذكوان، عن مولى عمرو بن العاص، ان عمرو بن العاص ارسله إلى علي يستاذنه على اسماء بنت عميس، فاذن له حتى إذا فرغ من حاجته، سال المولى عمرو بن العاص عن ذلك، فقال: " إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا او نهى ان ندخل على النساء بغير إذن ازواجهن " وفي الباب، عن عقبة بن عامر، وعبد الله بن عمرو، وجابر، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ بْنِ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ ذَكْوَانَ، عَنْ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ أَرْسَلَهُ إِلَى عَلِيٍّ يَسْتَأْذِنُهُ عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، فَأُذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فَرَغَ مِنْ حَاجَتِهِ، سَأَلَ الْمَوْلَى عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا أَوْ نَهَى أَنْ نَدْخُلَ عَلَى النِّسَاءِ بِغَيْرِ إِذْنِ أَزْوَاجِهِنَّ " وَفِي الْبَابِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عمرو بن العاص رضی الله عنہ کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) سے روایت ہے کہ عمرو بن العاص رضی الله عنہ نے انہیں علی رضی الله عنہ کے پاس (ان کی بیوی) اسماء بنت عمیس ۱؎ سے ملاقات کی اجازت مانگنے کے لیے بھیجا، تو انہوں نے اجازت دے دی، پھر جب وہ جس ضرورت سے گئے تھے اس سے کہہ سن کر فارغ ہوئے تو ان کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) نے ان سے (اس کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عورتوں کے پاس ان کے شوہروں سے اجازت لیے بغیر جانے سے منع فرمایا ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عقبہ بن عامر، عبداللہ بن عمرو اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: پہلے یہ جعفر طیار کی بیوی تھیں، پھر ان سے ابوبکر رضی الله عنہ نے شادی کی، ان کے بعد ان سے علی رضی الله عنہ نے شادی کی۔
۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوسرے کی بیوی کے پاس کسی شرعی ضرورت کی تکمیل کے لیے اس وقت جانا جائز ہو گا جب اس کے شوہر سے اجازت لے لی گئی ہو، اجازت کے بغیر اس کے پاس جانا جائز نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10752) (صحیح) (سند میں مولی عمرو بن العاص مبہم راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2779
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: پہلے یہ جعفر طیارکی بیوی تھیں، پھر ان سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے شادی کی، ان کے بعد ان سے علی رضی اللہ عنہ نے شادی کی۔
2؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوسرے کی بیوی کے پاس کسی شرعی ضرورت کی تکمیل کے لیے اس وقت جانا جائز ہو گا جب اس کے شوہر سے اجازت لے لی گئی ہو، اجازت کے بغیراس کے پاس جانا جائز نہیں ہے۔
نوٹ: (سند میں مولی عمرو بن العاص مبہم راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2779