(مرفوع) حدثنا سويد، حدثنا عبد الله، اخبرنا يونس بن يزيد، عن ابن شهاب، عن نبهان مولى ام سلمة، انه حدثه، ان ام سلمة حدثته، انها كانت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، وميمونة، قالت: فبينا نحن عنده اقبل ابن ام مكتوم فدخل عليه، وذلك بعد ما امرنا بالحجاب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " احتجبا منه "، فقلت: يا رسول الله، اليس هو اعمى لا يبصرنا ولا يعرفنا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " افعمياوان انتما الستما تبصرانه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ نَبْهَانَ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ حَدَّثَتْهُ، أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَيْمُونَةَ، قَالَتْ: فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَهُ أَقْبَلَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ فَدَخَلَ عَلَيْهِ، وَذَلِكَ بَعْدَ مَا أُمِرْنَا بِالْحِجَابِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " احْتَجِبَا مِنْهُ "، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَيْسَ هُوَ أَعْمَى لَا يُبْصِرُنَا وَلَا يَعْرِفُنَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں اور میمونہ رضی الله عنہا بھی موجود تھیں، اسی دوران کہ ہم دونوں آپ کے پاس بیٹھی تھیں، عبداللہ بن ام مکتوم آئے اور آپ کے پاس پہنچ گئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب ہمیں پردے کا حکم دیا جا چکا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں ان سے پردہ کرو“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا وہ اندھے نہیں ہیں؟ نہ وہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں؟ اور نہ ہمیں پہچان سکتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم دونوں بھی اندھی ہو؟ کیا تم دونوں انہیں دیکھتی نہیں ہو؟“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی فتنہ کو اپنا سر ابھارنے کے لیے مرد و عورت میں سے کسی کا بھی ایک دوسرے کو دیکھنا کافی ہو گا، اب جب کہ تم دونوں انہیں دیکھ رہی ہو اس لیے فتنہ سے بچنے کے لے پردہ ضروری ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ اللباس 37 (4112) (تحفة الأشراف: 18222)، و مسند احمد (6/296) (ضعیف) (سند میں ”نبھان“ مجہول راوی ہے، نیز یہ حدیث عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث ”میں حبشی لوگوں کا کھیل دیکھتی رہی …“ کے مخالف ہے، الإرواء 1806)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (3116)، الإرواء (1806) //، ضعيف أبي داود (887 / 4112) //
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2778
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی فتنہ کو اپنا سر ابھارنے کے لیے مردوعورت میں سے کسی کا بھی ایک دوسرے کو دیکھنا کافی ہو گا، اب جب کہ تم دونوں انہیں دیکھ رہی ہو اس لیے فتنہ سے بچنے کے لے پردہ ضروری ہے۔
نوٹ:
(سند میں ”نبھان“ مجہول راوی ہے، نیز یہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ”میں حبشی لوگوں کا کھیل دیکھتی رہی ...“ کے مخالف ہے، الإرواء: 1806)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2778
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4112
´آیت کریمہ: «وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن» کی تفسیر۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی، آپ کے پاس ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں کہ اتنے میں ابن ام مکتوم آئے، یہ واقعہ پردہ کا حکم نازل ہو چکنے کے بعد کا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں ان سے پردہ کرو“ تو ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟ نہ تو وہ ہم کو دیکھ سکتے ہیں، نہ پہچان سکتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اندھی ہو؟ کیا تم انہیں نہیں دیکھتی ہو؟۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی از۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4112]
فوائد ومسائل: اگر یہ روایت حسن ہے، جیسا کہ ہمارے فاضل محقق نے کہا ہے، تو پھر اس کی یہ توجیہ صحیح ہے جو امام ابوداودؒنے فرمائی ہے کہ حضرت ابن ام مکتوم سے پردے کا جو حکم دیا گیا تھا، وہ صرف ازواج مطہرات رضی اللہ کے لئے خاص تھا،عام مسلمان خواتین کے لئے یہ ضروری نہیں ہے اور بعض محققین کے نزدیک یہ روایت ہی ضعیف ہے، بہر حال دونوں صورتوں میں یہ روایت قابل حجت نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4112