سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: جنت کا وصف اور اس کی نعمتوں کا تذکرہ
Chapters on the description of Paradise
15. باب مَا جَاءَ فِي سُوقِ الْجَنَّةِ
15. باب: جنت کے بازار کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2549
Save to word اعراب
(قدسي) حدثنا حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا هشام بن عمار، حدثنا عبد الحميد بن حبيب بن ابي العشرين، حدثنا الاوزاعي، حدثنا حسان بن عطية، عن سعيد بن المسيب , انه لقي ابا هريرة , فقال ابو هريرة: اسال الله ان يجمع بيني وبينك في سوق الجنة، فقال سعيد: افيها سوق؟ قال: نعم، اخبرني رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ان اهل الجنة إذا دخلوها نزلوا فيها بفضل اعمالهم ثم يؤذن في مقدار يوم الجمعة من ايام الدنيا فيزورون ربهم ويبرز لهم عرشه ويتبدى لهم في روضة من رياض الجنة، فتوضع لهم منابر من نور ومنابر من لؤلؤ ومنابر من ياقوت ومنابر من زبرجد ومنابر من ذهب ومنابر من فضة، ويجلس ادناهم وما فيهم من دني على كثبان المسك والكافور، وما يرون ان اصحاب الكراسي بافضل منهم مجلسا "، قال ابو هريرة: قلت: يا رسول الله؟ وهل نرى ربنا؟ قال: " نعم، قال: هل تتمارون في رؤية الشمس والقمر ليلة البدر؟ " قلنا: لا، قال: " كذلك لا تتمارون في رؤية ربكم ولا يبقى في ذلك المجلس رجل إلا حاضره الله محاضرة حتى يقول للرجل منهم: يا فلان بن فلان اتذكر يوم قلت: كذا وكذا؟ فيذكره ببعض غدراته في الدنيا، فيقول: يا رب افلم تغفر لي؟ فيقول: بلى فبسعة مغفرتي بلغت بك منزلتك هذه، فبينما هم على ذلك غشيتهم سحابة من فوقهم فامطرت عليهم طيبا لم يجدوا مثل ريحه شيئا قط، ويقول ربنا تبارك وتعالى: قوموا إلى ما اعددت لكم من الكرامة فخذوا ما اشتهيتم، فناتي سوقا قد حفت به الملائكة فيه ما لم تنظر العيون إلى مثله ولم تسمع الاذان، ولم يخطر على القلوب، فيحمل لنا ما اشتهينا ليس يباع فيها ولا يشترى، وفي ذلك السوق يلقى اهل الجنة بعضهم بعضا، قال: فيقبل الرجل ذو المنزلة المرتفعة فيلقى من هو دونه وما فيهم دني فيروعه ما يرى عليه من اللباس فما ينقضي آخر حديثه حتى يتخيل إليه ما هو احسن منه، وذلك انه لا ينبغي لاحد ان يحزن فيها، ثم ننصرف إلى منازلنا، فتتلقانا ازواجنا فيقلن: مرحبا واهلا لقد جئت وإن بك من الجمال افضل مما فارقتنا عليه، فيقول: إنا جالسنا اليوم ربنا الجبار، ويحقنا ان ننقلب بمثل ما انقلبنا " , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وقد روى سويد بن عمرو , عن الاوزاعي شيئا من هذا الحديث.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ حَبِيبِ بْنِ أَبِي الْعِشْرِينَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ , أَنَّهُ لَقِيَ أَبَا هُرَيْرَةَ , فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ فِي سُوقِ الْجَنَّةِ، فَقَالَ سَعِيدٌ: أَفِيهَا سُوقٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلُوهَا نَزَلُوا فِيهَا بِفَضْلِ أَعْمَالِهِمْ ثُمَّ يُؤْذَنُ فِي مِقْدَارِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا فَيَزُورُونَ رَبَّهُمْ وَيُبْرِزُ لَهُمْ عَرْشَهُ وَيَتَبَدَّى لَهُمْ فِي رَوْضَةٍ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، فَتُوضَعُ لَهُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ وَمَنَابِرُ مِنْ لُؤْلُؤٍ وَمَنَابِرُ مِنْ يَاقُوتٍ وَمَنَابِرُ مِنْ زَبَرْجَدٍ وَمَنَابِرُ مِنْ ذَهَبٍ وَمَنَابِرُ مِنْ فِضَّةٍ، وَيَجْلِسُ أَدْنَاهُمْ وَمَا فِيهِمْ مِنْ دَنِيٍّ عَلَى كُثْبَانِ الْمِسْكِ وَالْكَافُورِ، وَمَا يُرَوْنَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَرَاسِيِّ بِأَفْضَلَ مِنْهُمْ مَجْلِسًا "، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ وَهَلْ نَرَى رَبَّنَا؟ قَالَ: " نَعَمْ، قَالَ: هَلْ تَتَمَارَوْنَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ؟ " قُلْنَا: لَا، قَالَ: " كَذَلِكَ لَا تَتَمَارَوْنَ فِي رُؤْيَةِ رَبِّكُمْ وَلَا يَبْقَى فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ رَجُلٌ إِلَّا حَاضَرَهُ اللَّهُ مُحَاضَرَةً حَتَّى يَقُولَ لِلرَّجُلِ مِنْهُمْ: يَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ أَتَذْكُرُ يَوْمَ قُلْتَ: كَذَا وَكَذَا؟ فَيُذَكِرُهُ بِبَعْضِ غَدْرَاتِهِ فِي الدُّنْيَا، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ أَفَلَمْ تَغْفِرْ لِي؟ فَيَقُولُ: بَلَى فَبِسَعَةِ مَغْفِرَتِي بَلَغَتْ بِكَ مَنْزِلَتَكَ هَذِهِ، فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَى ذَلِكَ غَشِيَتْهُمْ سَحَابَةٌ مِنْ فَوْقِهِمْ فَأَمْطَرَتْ عَلَيْهِمْ طِيبًا لَمْ يَجِدُوا مِثْلَ رِيحِهِ شَيْئًا قَطُّ، وَيَقُولُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى: قُومُوا إِلَى مَا أَعْدَدْتُ لَكُمْ مِنَ الْكَرَامَةِ فَخُذُوا مَا اشْتَهَيْتُمْ، فَنَأْتِي سُوقًا قَدْ حَفَّتْ بِهِ الْمَلَائِكَةُ فِيهِ مَا لَمْ تَنْظُرُ الْعُيُونُ إِلَى مِثْلِهِ وَلَمْ تَسْمَعَ الْأَذَانُ، وَلَمْ يَخْطُرْ عَلَى الْقُلُوبِ، فَيُحْمَلُ لَنَا مَا اشْتَهَيْنَا لَيْسَ يُبَاعُ فِيهَا وَلَا يُشْتَرَى، وَفِي ذَلِكَ السُّوقِ يَلْقَى أَهْلُ الْجَنَّةِ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، قَالَ: فَيُقْبِلُ الرَّجُلُ ذُو الْمَنْزِلَةِ الْمُرْتَفِعَةِ فَيَلْقَى مَنْ هُوَ دُونَهُ وَمَا فِيهِمْ دَنِيٌّ فَيَرُوعُهُ مَا يَرَى عَلَيْهِ مِنَ اللِّبَاسِ فَمَا يَنْقَضِي آخِرُ حَدِيثِهِ حَتَّى يَتَخَيَّلَ إِلَيْهِ مَا هُوَ أَحْسَنُ مِنْهُ، وَذَلِكَ أَنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَحْزَنَ فِيهَا، ثُمَّ نَنْصَرِفُ إِلَى مَنَازِلِنَا، فَتَتَلَقَّانَا أَزْوَاجُنَا فَيَقُلْنَ: مَرْحَبًا وَأَهْلًا لَقَدْ جِئْتَ وَإِنَّ بِكَ مِنَ الْجَمَالِ أَفْضَلَ مِمَّا فَارَقْتَنَا عَلَيْهِ، فَيَقُولُ: إِنَّا جَالَسْنَا الْيَوْمَ رَبَّنَا الْجَبَّارَ، وَيَحِقُّنَا أَنْ نَنْقَلِبَ بِمِثْلِ مَا انْقَلَبْنَا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَى سُوَيْدُ بْنُ عَمْرٍو , عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ شَيْئًا مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ.
سعید بن مسیب سے روایت ہے وہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ملے تو ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور تم کو جنت کے بازار میں اکٹھا کرے۔ سعید بن مسیب نے کہا: کیا اس میں بازار بھی ہے؟ ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: ہاں، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو وہ اس میں اپنے اعمال کے مطابق اتریں گے، پھر دنیا کے دنوں میں سے جمعہ کے دن کے برابر انہیں اجازت دی جائے گی تو وہ اپنے رب کی زیارت کریں گے، ان کے لیے عرش ظاہر ہو گا اور جنت کے ایک باغ میں نظر آئے گا، پھر ان کے لیے نور کے منبر، موتی کے منبر، یاقوت کے منبر، زمرد کے منبر، سونے کے منبر، اور چاندی کے منبر رکھے جائیں گے، ان کے ادنیٰ درجہ والے حالانکہ ان میں کوئی بھی ادنیٰ نہیں ہو گا مشک اور کافور کے ٹیلے پر بیٹھیں گے اور دوسرے منبر والوں کے بارے میں یہ نہیں خیال کریں گے کہ وہ ان سے اچھی جگہ بیٹھے ہیں۔ ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، کیا تم سورج اور چودہویں رات کے چاند دیکھنے میں دھکم پیل کیے جاتے ہو؟ ہم نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: اسی طرح تم اپنے رب کا دیدار کرنے میں دھکم پیل نہیں کرو گے، اور اس مجلس میں کوئی ایسا آدمی نہیں ہو گا جس کے روبرو اللہ تعالیٰ گفتگو نہ کرے، حتیٰ کہ ان میں سے ایک آدمی سے کہے گا: اے فلاں بن فلاں! کیا تمہیں وہ دن یاد ہے جب تم نے ایسا ایسا کیا تھا؟ پھر اسے اس کے بعض گناہ یاد دلائے گا جو دنیا میں اس نے کیے تھے تو وہ آدمی کہے گا: اے میرے رب! کیا تو نے مجھے معاف نہیں کر دیا؟ اللہ تعالیٰ کہے گا: کیوں نہیں؟ میری مغفرت کے سبب ہی تم اس مقام پر ہو۔ وہ سب اسی حال میں ہوں گے کہ اوپر سے انہیں ایک بدلی ڈھانپ لے گی اور ان پر ایسی خوشبو برسائے گی کہ اس طرح کی خوشبو انہیں کبھی نہیں ملی ہو گی اور ہمارا رب تبارک و تعالیٰ کہے گا: اس کرامت اور انعام کی طرف جاؤ جو ہم نے تمہارے لیے تیار کر رکھی ہے، اور اس میں سے جو چاہو لو، چنانچہ ہم ایک ایسے بازار میں آئیں گے جسے فرشتے گھیرے ہوں گے اس میں ایسی چیزیں ہوں گی کہ اس طرح نہ کبھی آنکھوں نے دیکھی ہو گی نہ کانوں نے سنا ہو گا اور نہ کبھی دلوں میں اس کا خیال آیا ہو گا، ہم جو چاہیں گے ہمارے پاس لایا جائے گا، اس میں خرید و فروخت نہیں ہو گی اور اسی بازار میں جنتی ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے، آپ نے فرمایا: ایک بلند مرتبہ والا آدمی اپنے سے کم رتبہ والے کی طرف متوجہ ہو گا اور اس سے ملاقات کرے گا (حالانکہ حقیقت میں اس میں سے کوئی بھی کم مرتبے والا نہیں ہو گا) تو اسے (ادنیٰ مرتبے والے کو) اس کا لباس دیکھ کر عجیب سا لگے گا پھر اس کی آخری گفتگو ختم بھی نہیں ہو گی کہ اسے محسوس ہو گا کہ اس کا لباس اس سے بھی اچھا ہے اور یہ اس وجہ سے ہو گا کہ جنت میں کسی کا مغموم ہونا مناسب نہیں ہے۔ پھر ہم (جنتی) اپنے گھروں کی طرف واپس جائیں گے اور اپنی بیویوں سے ملیں گے تو وہ کہیں گی: خوش آمدید! آپ ایسا حسن و جمال لے کر آئے ہیں جو اس سے کہیں بہتر ہے جب آپ ہم سے جدا ہوئے تھے، تو وہ آدمی کہے گا: آج ہم اپنے رب جبار کے ساتھ بیٹھے تھے اور ہمارا حق ہے کہ ہم اسی طرح لوٹیں جس طرح لوٹے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- ـ سوید بن عمرو نے بھی اوزاعی سے اس حدیث کا بعض حصہ روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 39 (4336) (تحفة الأشراف: 13091) (ضعیف) (سند میں عبدالحمید کبھی کبھی روایت میں غلطی کر جاتے تھے، اور ہشام بن عمار میں بھی کلام ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے الضعیفة رقم: 1722)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (4336) // ضعيف ابن ماجة برقم (947)، المشكاة (5647) // ضعيف الجامع الصغير (1831) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2549) إسناده ضعيف / جه 4336
هشام بن عمار اختلط (الكواكب النيرات ص 83)

   جامع الترمذي2549عبد الرحمن بن صخرأهل الجنة إذا دخلوها نزلوا فيها بفضل أعمالهم ثم يؤذن في مقدار يوم الجمعة من أيام الدنيا فيزورون ربهم ويبرز لهم عرشه ويتبدى لهم في روضة من رياض الجنة فتوضع لهم منابر من نور ومنابر من لؤلؤ ومنابر من ياقوت ومنابر من زبرجد ومنابر من ذهب ومنابر من فضة ويجلس أد
   سنن ابن ماجه4336عبد الرحمن بن صخرأهل الجنة إذا دخلوها نزلوا فيها بفضل أعمالهم فيؤذن لهم في مقدار يوم الجمعة من أيام الدنيا فيزورون الله ويبرز لهم عرشه ويتبدى لهم في روضة من رياض الجنة فتوضع لهم منابر من نور ومنابر من لؤلؤ ومنابر من ياقوت ومنابر من زبرجد ومنابر من ذهب ومنابر من فضة ويجلس

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2549 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2549  
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں عبد الحمید کبھی کبھی روایت میں غلطی کرجاتے تھے،
اورہشام بن عمار میں بھی کلام ہے،
تفصیل کے لیے دیکھیے:
الضعیفة رقم: 1722)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2549   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.