(مرفوع) حدثنا عقبة بن مكرمونصر بن علي الجهضمي، قالا: حدثنا ابو قتيبة سلم بن قتيبة، عن طعمة بن عمرو، عن حبيب بن ابي ثابت، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صلى لله اربعين يوما في جماعة يدرك التكبيرة الاولى، كتبت له براءتان، براءة من النار، وبراءة من النفاق ". قال ابو عيسى: وقد روي هذا الحديث، عن انس موقوفا ولا اعلم احدا رفعه إلا ما روى سلم بن قتيبة، عن طعمة بن عمرو، عن حبيب بن ابي ثابت، عن انس، وإنما يروى هذا الحديث عن حبيب بن ابي حبيب البجلي، عن انس بن مالك قوله، حدثنا بذلك هناد، حدثنا وكيع، عن خالد بن طهمان، عن حبيب بن ابي حبيب البجلي، عن انس نحوه ولم يرفعه، وروى إسماعيل بن عياش هذا الحديث، عن عمارة بن غزية، عن انس بن مالك، عن عمر بن الخطاب، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا، وهذا حديث غير محفوظ، وهو حديث مرسل، وعمارة بن غزية لم يدرك انس بن مالك، قال محمد بن إسماعيل حبيب بن ابي حبيب يكنى ابا الكشوثى ويقال: ابو عميرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍوَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، عَنْ طُعْمَةَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلَّى لِلَّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا فِي جَمَاعَةٍ يُدْرِكُ التَّكْبِيرَةَ الْأُولَى، كُتِبَتْ لَهُ بَرَاءَتَانِ، بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ، وَبَرَاءَةٌ مِنَ النِّفَاقِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ أَنَسٍ مَوْقُوفًا وَلَا أَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ إِلَّا مَا رَوَى سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، عَنْ طُعْمَةَ بْنِ عَمْرٍوَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ الْبَجَلِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَوْلَهُ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ خَالِدِ بْنِ طَهْمَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ الْبَجَلِيِّ، عَنْ أَنَسٍ نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَرَوَى إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا، وَهَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَهُوَ حَدِيثٌ مُرْسَلٌ، وَعُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ لَمْ يُدْرِكْ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل حَبِيبُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ يُكْنَى أَبَا الْكَشُوثَى وَيُقَالُ: أَبُو عُمَيْرَةَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ کی رضا کے لیے چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھی تو اس کے لیے دو قسم کی برات لکھی جائے گی: ایک آگ سے برات، دوسری نفاق سے برات“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
انس سے یہ حدیث موقوفاً بھی روایت کی گئی ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ ابوقتیبہ سلمہ بن قتیبہ کے سوا کسی نے اسے مرفوع روایت کیا ہو یہ حدیث حبیب بن ابی حبیب بجلی سے بھی روایت کی جاتی ہے انہوں نے اسے انس بن مالک سے روایت کیا ہے اور اسے انس ہی کا قول قرار دیا ہے، اسے مرفوع نہیں کیا، نیز اسماعیل بن عیاش نے یہ حدیث بطریق «عمارة بن غزية عن أنس بن مالك عن عمر بن الخطاب عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے، اور یہ حدیث غیر محفوظ اور مرسل ۱؎ ہے، عمارہ بن غزیہ نے انس بن مالک کا زمانہ نہیں پایا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث798
´عشاء اور فجر باجماعت پڑھنے کی فضیلت۔` عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جس شخص نے مسجد میں چالیس دن تک جماعت کے ساتھ نماز پڑھی، اور نماز عشاء کی پہلی رکعت فوت نہ ہوئی، تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس کے لیے جہنم سے آزادی لکھ دے گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 798]
اردو حاشہ: (1) چالیس رات سے مراد چالیس دن رات کی مسلسل مدت ہے۔
(2) چالیس دن مسلسل باجماعت ادا کرنے سے اس کی عادت ہو جاتی ہے پھر آئندہ زندگی میں جماعت کی پابندی کرنے کی توفیق مل جاتی ہے جس کا نتیجہ اللہ کی رضا کا حصول اور جہنم سے آزادی ہے۔
(3) یہ روایت بعض حضرات کے نزدیک حسن ہے تاہم اس میں الفاظ (لَا تَفُوْتُهُ الرَّكعَةُ الاُوْلٰي) اس کی نماز عشاء کی پہلی رکعت نہ چھوٹے ثابت نہیں ان الفاظ کے بغیر ان کے نزدیک یہ صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الصحيحة رقم: 2652)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 798