(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني، حدثنا نعيم بن حماد، حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إنكم في زمان من ترك منكم عشر ما امر به هلك، ثم ياتي زمان من عمل منكم بعشر ما امر به نجا "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث نعيم بن حماد، عن سفيان بن عيينة، قال: وفي الباب عن ابي ذر، وابي سعيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ الْجَوْزَجَانِيُّ، حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّكُمْ فِي زَمَانٍ مَنْ تَرَكَ مِنْكُمْ عُشْرَ مَا أُمِرَ بِهِ هَلَكَ، ثُمَّ يَأْتِي زَمَانٌ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ بِعُشْرِ مَا أُمِرَ بِهِ نَجَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ نُعَيْمِ بْنِ حَمَّادٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَأَبِي سَعِيدٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ ایسے زمانہ میں ہو کہ جو اس کا دسواں حصہ چھوڑ دے جس کا اسے کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو وہ ہلاک ہو جائے گا، پھر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ تم میں سے جو اس کے دسویں حصہ پر عمل کرے جس کا اسے کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو وہ نجات پا جائے گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف نعیم بن حماد کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ سفیان بن عیینہ سے روایت کرتے ہیں، ۲- اس باب میں ابوذر اور ابو سعید خدری رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اس وقت جب کہ دین کا غلبہ ہے اس کے معاونین کی کثرت ہے ایسے وقت میں شرعی امور میں سے دسویں حصہ کا ترک کرنا اور اسے چھوڑ دینا باعث ہلاکت ہے، لیکن وہ زمانہ جو فسق و فجور سے بھرا ہوا ہو گا، اسلام کمزور اور کفر غالب ہو گا، اس وقت دین کے معاونین قلت میں ہوں گے تو ایسے وقت میں احکام شرعیہ کے دسویں حصہ پر عمل کرنے والا بھی کامیاب و کامران ہو گا، لیکن اس دسویں حصہ میں ارکان اربعہ ضرور شامل ہوں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13721) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ”نعیم بن حماد“ حافظہ کے سخت ضعیف ہیں، تفصیل کے لیے دیکھیے الصحیحة رقم: 2510، وتراجع الالبانی224)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (684)، المشكاة (179)، الروض النضير (1076) // ضعيف الجامع الصغير (2038) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2267) إسناده ضعيف سفيان بن عيينة عنعن (تقدم: 1778)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2267
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی اس وقت جب کہ دین کا غلبہ ہے اس کے معاونین کی کثرت ہے ایسے وقت میں شرعی امورمیں سے دسویں حصہ کا ترک کرنا اور اسے چھوڑدینا باعث ہلاکت ہے، لیکن وہ زمانہ جو فسق وفجور سے بھرا ہوا ہوگا، اسلام کمزور اور کفر غالب ہوگا، اس وقت دین کے معاونین قلت میں ہوں گے توایسے وقت میں احکام شرعیہ کے دسویں حصہ پر عمل کرنے والابھی کا میاب وکامران ہوگا، لیکن اس دسویں حصہ میں ارکان اربعہ ضرور شامل ہوں۔
نوٹ: (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ”نعیم بن حماد“ حافظہ کے سخت ضعیف ہیں، تفصیل کے لیے دیکھیے: الصحیحة رقم: 2510، وتراجع الألبا نی: 224)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2267
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 179
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت` «. . . وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّكُم فِي زمَان تَرَكَ مِنْكُمْ عُشْرَ مَا أُمِرَ بِهِ هَلَكَ ثُمَّ يَأْتِي زَمَانٌ مَنْ عَمِلَ مِنْهُمْ بِعُشْرِ مَا أَمر بِهِ نجا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایک ایسے زمانے میں ہو کہ اگر کوئی احکام خداوندی میں سے دس حصوں میں سے ایک حصہ یعنی دسواں چھوڑ دے گا تو ہلاک ہو جائے گا۔ لیکن آئندہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ اس زمانے کے لوگوں میں سے اگر کوئی احکام خداوندی میں سے دسویں حصہ پر بھی عمل کر لے گا تو نجات پائے گا۔“ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 179]
تحقیق الحدیث اس کی سند ضعیف ہے۔ یہ سند دو وجہ سے ضعیف ہے: ➊ نعیم بن حماد رحمہ اللہ اگرچہ صدوق حسن الحدیث تھے لیکن یہ روایت ان روایتوں میں سے ہے جن کا نعیم پر انکار کیا گیا تھا۔ دیکھئے میری کتاب علمی مقالات [ج1ص462] ➋ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ مدلس تھے اور یہ روایت «عن» سے ہے۔ ◄ اس روایت کا سیدنا ابوذر الغفاری رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک ضعیف شاہد مسند احمد [5؍155] اور ذم الکلام للہروی [نسخة عبدالرحمٰن الشبل ح97، نسخة الشيخ الصالح ابي جابر عبدالله بن محمد بن عثمان الانصاري حفظه الله ح100] وغیرہما میں ہے۔ دیکھئے: [السلسلة الصحيحة للالباني 6؍40، 41 ح2510] ↰ یہ شاہد متصل نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”تم لوگ ایسے زمانے میں ہو کہ نماز لمبی اور خطبہ مختصر ہے، علماء زیادہ اور خطباء تھوڑے ہیں اور تم پر ایسا زمانہ آئے گا کہ نماز مختصر اور خطبہ لمبا ہو گا، خطباء زیادہ اور علماء تھوڑے ہوں گے۔“ الخ [المعجم الكبير للطبراني 113/9ح 8567 وسنده حسن] ↰ اس موقوف روایت (جو کہ حکماً مرفوع ہے) میں درج بالا حدیث کا کوئی شاہد نہیں ہے۔
خلاصة التحقيق: ◄ اس روایت کو بعض علماء نے حسن لغیرہ قرار دیا ہے لیکن یہ اپنے تمام شواہد کے ساتھ ضعیف ہے۔