(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن جعفر بن إياس، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد الخدري، قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية فنزلنا بقوم، فسالناهم القرى فلم يقرونا، فلدغ سيدهم فاتونا، فقالوا: هل فيكم من يرقي من العقرب، قلت: نعم انا، ولكن لا ارقيه حتى تعطونا غنما، قال: فإنا نعطيكم ثلاثين شاة، فقبلنا، فقرات عليه الحمد لله سبع مرات فبرا، وقبضنا الغنم، قال: فعرض في انفسنا منها شيء، فقلنا: لا تعجلوا حتى تاتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فلما قدمنا عليه ذكرت له الذي صنعت، قال: " وما علمت انها رقية، اقبضوا الغنم واضربوا لي معكم بسهم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وابو نضرة اسمه المنذر بن مالك بن قطعة، ورخص الشافعي للمعلم ان ياخذ على تعليم القرآن اجرا، ويرى له ان يشترط على ذلك، واحتج بهذا الحديث، وجعفر بن إياس هو جعفر بن ابي وحشية، وهو ابو بشر، وروى شعبة، وابو عوانة، وغير واحد، عن ابي بشر هذا الحديث، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ فَنَزَلْنَا بِقَوْمٍ، فَسَأَلْنَاهُمُ الْقِرَى فَلَمْ يَقْرُونَا، فَلُدِغَ سَيِّدُهُمْ فَأَتَوْنَا، فَقَالُوا: هَلْ فِيكُمْ مَنْ يَرْقِي مِنَ الْعَقْرَبِ، قُلْتُ: نَعَمْ أَنَا، وَلَكِنْ لَا أَرْقِيهِ حَتَّى تُعْطُونَا غَنَمًا، قَالَ: فَإِنَّا نُعْطِيكُمْ ثَلَاثِينَ شَاةً، فَقَبِلْنَا، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَبْعَ مَرَّاتٍ فَبَرَأَ، وَقَبَضْنَا الْغَنَمَ، قَالَ: فَعَرَضَ فِي أَنْفُسِنَا مِنْهَا شَيْءٌ، فَقُلْنَا: لَا تَعْجَلُوا حَتَّى تَأْتُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَيْهِ ذَكَرْتُ لَهُ الَّذِي صَنَعْتُ، قَالَ: " وَمَا عَلِمْتَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ، اقْبِضُوا الْغَنَمَ وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَهْمٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو نَضْرَةَ اسْمُهُ الْمُنْذِرُ بْنُ مَالِكِ بْنِ قُطَعَةَ، وَرَخَّصَ الشَّافِعِيُّ لِلْمُعَلِّمِ أَنْ يَأْخُذَ عَلَى تَعْلِيمِ الْقُرْآنِ أَجْرًا، وَيَرَى لَهُ أَنْ يَشْتَرِطَ عَلَى ذَلِكَ، وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَجَعْفَرُ بْنُ إِيَاسٍ هُوَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ، وَهُوَ أَبُو بِشْرٍ، وَرَوَى شُعْبَةُ، وَأَبُو عَوَانَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا، ہم نے ایک قوم کے پاس پڑاؤ ڈالا اور ان سے ضیافت کی درخواست کی، لیکن ان لوگوں نے ہماری ضیافت نہیں کی، اسی دوران ان کے سردار کو بچھو نے ڈنک مار دیا، چنانچہ انہوں نے ہمارے پاس آ کر کہا: کیا آپ میں سے کوئی بچھو کے ڈنک سے جھاڑ پھونک کرتا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، میں کرتا ہوں، لیکن اس وقت تک نہیں کروں گا جب تک کہ تم مجھے کچھ بکریاں نہ دے دو، انہوں نے کہا: ہم تم کو تیس بکریاں دیں گے، چنانچہ ہم نے قبول کر لیا اور میں نے سات بار سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کیا تو وہ صحت یاب ہو گیا اور ہم نے بکریاں لے لیں ۱؎، ہمارے دل میں بکریوں کے متعلق کچھ خیال آیا ۲؎، لہٰذا ہم نے کہا: جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں، جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو میں نے جو کچھ کیا تھا آپ سے بیان کر دیا، آپ نے فرمایا: ”تم نے کیسے جانا کہ سورۃ فاتحہ رقیہ (جھاڑ پھونک کی دعا) ہے؟ تم لوگ بکریاں لے لو اور اپنے ساتھ اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- شعبہ، ابو عوانہ ہشام اور کئی لوگوں نے یہ حدیث «عن أبي المتوكل عن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے، ۳- تعلیم قرآن پر معلم کے لیے اجرت لینے کو امام شافعی نے جائز کہا ہے اور وہ معلم کے لیے اجرت کی شرط لگانے کو درست سمجھتے ہیں، انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ خیال آیا کہ یہ ہمارے لیے حلال ہیں یا نہیں۔
۲؎: جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اذان، قضاء، امامت، اور تعلیم قرآن کی اجرت لی جا سکتی ہے، کیونکہ صحیح بخاری میں کتاب اللہ کی تعلیم کی بابت اجرت لینے سے متعلق ابن عباس کی روایت اور سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کر کے اس کی اجرت لینے سے متعلق ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی یہ حدیث جو صحیح بخاری میں بھی ہے، اسی طرح صحیحین میں سہل بن سعد رضی الله عنہ کی حدیث جس میں ہے کہ آپ نے ایک شخص کے نکاح میں قرآن کی چند آیات کو مہر قرار دیا یہ ساری کی ساری روایات اس کے جواز پر دلیل ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإجارة 16 (2276)، وفضائل القرآن 9 (5007)، والطب 33 (5736)، و39 (5749)، صحیح مسلم/السلام 23 (2201)، سنن ابی داود/ الطب 19 (3900)، سنن ابن ماجہ/التجارات 7 (2156) (تحفة الأشراف: 4307)، و مسند احمد (3/44) (صحیح)»
انطلق نفر من أصحاب النبي في سفرة سافروها حتى نزلوا على حي من أحياء العرب فاستضافوهم فأبوا أن يضيفوهم فلدغ سيد ذلك الحي فسعوا له بكل شيء لا ينفعه شيء فقال بعضهم لو أتيتم هؤلاء الرهط الذين نزلوا لعله أن يكون عند بعضهم شيء فأتوهم فقالوا يا
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2063
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی یہ خیال آیا کہ یہ ہمارے لیے حلال ہیں یا نہیں۔
2؎: جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اذان، قضا، امامت، اور تعلیم قرآن کی اجرت لی جاسکتی ہے، کیوں کہ صحیح بخاری میں کتاب اللہ کی تعلیم کی بابت اجرت لینے سے متعلق ابن عباس کی روایت اور سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرکے اس کی اجرت لینے سے متعلق ابوسعیدخدری کی یہ حدیث جو صحیح بخاری میں بھی ہے، اسی طرح صحیحین میں سہل بن سعدکی حدیث جس میں ہے کہ آپ نے ایک شخص کے نکاح میں قرآن کی چند آیات کو مہر قرار دیا یہ ساری کی ساری روایات اس کے جواز پر دلیل ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2063
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5007
موجودہ دور میں ایک خاص فکر کے حاملین دینی امور پر اجرت کے مسئلے کو بڑھا چڑھا کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک خواہ دم پر اجرت لی جائے، خواہ قرآنی و دینی تعلیم پر و ظیفہ و معاوضہ قبول کیا جائے سب ناجائز و حرام ہے۔ حالانکہ قرآن کریم اور دینی امور پر اجرت دو طرح سے ہو سکتی ہے۔ (1) دم کی اجرت: اس کے جواز پر تمام اہل عل کا اتفاق ہے۔
(2) قرآن کریم کی تعلیم اور دیگر دینی امور پر اجرت: اسے امت میں سے صرف متقدمین احناف نے ناجائز قرار دیا، لیکن ان کے گھر ہی سے اس فتوے کو رد کر دیا گیا۔ خود بعد والے احناف نے اس شاذ فتوے کو قیاس کے ذریعے رد کرتے ہوئے دینی امور پر اجرت کو جائز قرار دیا۔ یاد رہے کہ امام ابوحنیفہ سے دینی امور پر اجرت کا ناجائز ہونا ثابت نہیں ہے۔ محض بعض احناف کا اس کی نسبت امام صاحب کی طرف کر دینا، اس کے ثبوت کی دلیل نہیں ہے۔
یوں مسلمانوں کے نزدیک شرعی دلائل کی روشنی میں قرآن مجید کی تعلیم اور دینی امور پر اجرت شرعا جائز ہے۔ اس میں کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں۔
➊ فقیہ الامت، امام بخاری رحمہ اللہ (۱۹۴-۲۵۶ھ) نے اس حدیث کو ”کتاب الا جارۃ“(اُجرت کے بیان) اور ”کتاب الطبّ“(علاج کے بیان) میں ذکر کر کے یہ ثابت کیا یہ کہ قرآن کریم اور دینی امور پر اجرت لینا جائز ہے۔
٭ شارح صحیح بخاری، علامہ ابوالحسن، علی بن خلف، ابن بطال رحمہ اللہ (م: ۴۴۹ھ) اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: «ولا فرق بين الأجرة على الرقَى، وعلى تعليم القرآن ؛ لأن ذلك كله منفعة . وقوله عليه السلام: ”إن أحق ما أخذتم عليه أجرًا ؛ كتاب الله“ هو عام يدخل فيه إباحة التعليم وغيره.» ”دم کے معاوضے اور قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں معاملات منفعت پر مبنی ہیں، نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اجرت لینے کے حوالے سے سب سے بہترین چیز کتاب اللہ ہے، یہ فرمان عام ہے اور اسں میں تعلیم وغیرہ پر اجرت کا جواز بھی شامل ہے۔“[شرح صحیح البخاری: 6/ 406، مکتبة الرشد، الریاض، 2003ء]
٭مشہور حنفی، علامہ ابو محمد، محمود بن احمد، عینی (۷۶۲۔۸۵۵ھ) صحیح بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں: «مطابقته للترجمة من حيث إن فيه جواز الأجرة لقرائة القرآن، وللتعليم أيضا، وللرقيا به أيضا لعموم اللفظ.» ”اس حدیث کی باب کے عنوان سے مطابقت اس طرح سے ہے کہ اس میں قرآن کریم پڑھ کر، اس کی تعلیم دے کر اور اس کا دم کر کے اجرت لینے کا جواز ہے، کیونکہ حدیث کے الفاظ میں عموم ہے۔“[عمدة القاري شرح صحيح البخاري:95/12، دار إحياء التراث العربي، بيروت]
٭علامہ محمد بن اسماعیل، امیر صنعانی رحمہ اللہ (۱۰۹۹۔۱۱۸۲ھ) لکھتے ہیں: «وذكر البخاري لهذه القصة فى هذا الباب وإن لم تكن من الأجرة على التعليم وإنما فيها دلالة على جواز أخذ العوض فى مقابلة قراءة القرآن لتأييد جواز أخذ الأجرة على قراءة القرآن تعليماً أو غيره إذ لا فرق بين قراءته للتعليم وقراءته للطب.» ”امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قصہ کو قرآن کریم پر اجرت کے بیان میں ذکر کیا ہے۔ اگرچہ اس حدیث میں تعلیم پر اجرت کا بیان نہیں ہوا، لیکن اس میں قرآن کریم پڑھنے کے بدلے معاوضہ لینے کا ذکر ضرور ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیم یا کسی دوسرے مقصد (علاج) کے لیے قرآن کریم کی قرأت پر اجرت جائز قرار دینے کے لیے اس حدیث کو بیان کیا ہے، کیوں کہ تعلیم یا علاج کے لیے قرآن کریم پڑھنے میں کوئی فرق نہیں۔“[سبل السلام في شرح بلوغ المرام: 117/2، دارالحديث]
➋ اہل سنت کے سرتاج، امام شافعی رحمہ اللہ (۱۵۰-۲۰۴ھ) سے نقل کرتے ہوئے امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «ورخص الشافعي للمعلم أن يأخذ على تعليم القرآن أجرا، ويري له أن يشترط على ذلك، واجتج بهذا الحديث.» ”امام شافعی رحمہ اللہ نے مُعَلِّم کے لیے رخصت دی ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم کے عوض اجرت لے سکتا ہے۔ وہ اس کے لیے (پیشگی) طے کرنا بھی جائز سمجھتے ہیں۔ امام صاحب نے اسی حدیث سے استدلال فرماتے ہے۔ [سنن الترمذی، تحت الحدیث: 2063]
➌ فقیہہ و محدث، حافظ، ابو سلیمان، حمد بن محمد خطابی رحمہ اللہ (۳۱۹۔۳۸۸ھ) لکھتے ہیں: اس حدیث سے قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت لینے کا جواز بیان ہوا ہے۔ اگر یہ حرام ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو یہ بکریاں واپس کرنے کا حکم فرماتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس فعل کو درست قرار دیا اور فرمایا کہ تم نے اچھا کیا ہے، نیز اس اجرت کو بھی پسند فرمایا جو انہوں نے لی تھی، مزید یہ بھی فرمایا کہ اپنے ساتھ میرا حصہ بھی نکالو، تو ان سب باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دینی امور پر اُجرت بہر صورت جائز ہے۔ [معالم السنن:101/3، المطبعة العلمیّة، حلب، 1932ء]
➍ امام ابن حبان رحمہ اللہ (م:۳۵۴ھ) نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا ہے: «ذكر الإخبار عن إباحة المرء الأجرة على كتاب الله جل وعلا.» ”کتاب اللہ پر اجرت لینے کے جواز پر دلالت کرنے والی حدیث کا بیان۔“[صحيح ابن حبان:546/11، قبل الحديث:5146، مؤسسة الرسالة، بيروت،1993ء]
➎ حافظ علی بن احمد بن سعید، ابن حزم رحمہ اللہ (۳۸۴-۴۵۶ھ) فرماتے ہیں: ”قرآن کریم اور حدیث کی تعلیم پر ماہانہ یا یک مشت اجرت لینا سب جائز ہے۔ نیز دم کرنے، مصاحف (قرآن کریم) لکھنے اور کتب احادیث کی کتابت کرنے کی اجرت بھی جائز ہے، کیوں کہ اس سے ممانعت کی کوئی دلیل (وحی الٰہی میں) وارد نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس اس کا جواز ثابت ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی سند سے ہمیں بیان کیا گیا ہے۔“[المحلّٰی بالآثار:18/7، دارالفکر، بیروت]
➏ امام بیہقی رحمہ اللہ (۳۸۴-۴۵۸ھ) کی باب بندی کے الفاظ یہ ہیں: «باب أخذ الأجر علی كتاب الله تعالیٰ.» کتاب اللہ پر اجرت لینے کا بیان۔ [السنن الکبریٰ:397/7، دارالکتب العلمیة، بیروت، 2003ء]
٭نیز ایک مقام پر یوں رقم طراز ہیں: «باب أخذ الأجرة علی تعليم القرآن والرقية به.»”قرآن کریم کی تعلیم اور دم پر اجرت لینے کا بیان۔“[ایضاً: 205/6]
➐حافظ ابو محمد، حسین بن مسعود بغوی رحمہ اللہ (م: ۵۱۶ھ) فرماتے ہیں: اس حدیث میں دلیل ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت لینا اور اسے طے کرنا جائز ہے۔ امام عطاء بن ابو رباح اور امام حکم بن عتیبہ کا یہی مذہب ہے۔ امام مالک، امام شافعی اور ابو ثور رحمہم اللہ یہی فرماتے ہیں۔ امام حکم تو فرماتے ہیں: میں نے کسی بھی فقیہ کو دینی امور پر اجرت کو مکروہ کہتے نہیں سنا۔ اس حدیث میں یہ دلیل بھی ہے کہ قرآن کریم اور ذکر الٰہی کے ساتھ دم کیا جا سکتا ہے اور اس پر اجرت لینا بھی جائز ہے۔ [شرح السنة:268/8، المكتب الإسلامي، بيروت، 1983]
➑ شارح صحیح مسلم، حافظ ابو زکریا، یحییٰ بن شرف نووی رحمہ اللہ (۶۳۱۔۶۷۶ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ان سے بکریاں لے لو اور اپنے ساتھ میرا بھی حصہ نکالو، اس بات میں صریح ہے کہ سورہ فاتحہ اور ذکر الہیٰ کے ذریعے دم کرنے کی اجرت لینا جائز و حلال ہے، اس میں کوئی کراہت نہیں۔ یہی حکم قرآن کریم کی تعلیم کا بھی ہے۔ امام شافعی، امام مالک، امام احمد، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابوثور، دیگر اسلاف اور بعد میں آنے والے اہل علم کا یہی مذہب تھا۔ ہاں، امام ابو حنیفہ نے قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت سے منع کیا ہے،البتہ دم پر اجرت کی انہوں نے بھی اجازت دی ہے۔“[المنھاج شرح مسلم بن الحجاج:188/14، دار إحياء التراث العربي، بيروت، 1392ھ]
➒ مشہور مفسر، علامہ، ابو عبداللہ، محمد بن احمد قرطبی رحمہ اللہ (۶۰۰-۶۷۱ھ) لکھتے ہیں: ”قرآنی تعلیم پر اجرت لینے کو امام مالک، شافعی، احمد بن حنبل، ابوثور اور اکثر علما جائز قرار دیتے ہیں، کیوں کہ صحیح بخاری میں مذکور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دم والی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مذکور ہے کہ سب سے بہترین اجرت وہ ہے جو کتاب اللہ پر لی جائے۔ یہ فرمان نبوی نص ہے، جو اختلاف کو ختم کر رہی ہے، لہٰذا اس پر اعتماد کرنا ضروری ہے۔“[الجامع الأحكام القرآن تفسير القرطبي:335/1، دارالكتب المصرية، القاھرة،1964ء]
کیا یہ حق ضیافت تھا؟ بعض لوگ اس حدیث سے صریحاً ثابت ہونے والے مسئلے کا انکار کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ بکریاں دم کی اجرت کے طور پر نہیں بلکہ حق ضیافت کے طور پر لی گئی تھیں، کیونکہ انہوں نے ضیافت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ٭پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح الفاظ کے صریحا خلاف ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح الفاظ میں نہ صرف قرآن کریم کی اجرت کہا، بلکہ اسے بہترین اجرت بھی قرار دیا۔ ٭دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث کے کسی بھی طریق میں ایسا کوئی لفظ موجود نہیں جس سے صحابہ کرام کا حق ضیافت کے طور پر بکریاں لینا ثابت ہوتا ہو۔ اسلاف امت میں سے بھی کسی نے کوئی ایسی بات نہیں کی۔ ٭تیسری بات یہ ہے کہ اسلاف امت اور فقہائے اسلام نے اسے دم کی اجرت ہی قرار دیا ہے، حق ضیافت نہیں۔ ٭ اصل بات یہ ہے کہ اگرچہ ان لوگوں نے حق ضیافت دینے سے انکار کیا تھا، لیکن صحابہ کرام نے ان سے حق ضیافت نہیں، بلکہ دم کا معاوضہ لیا تھا۔
ایک حدیث سے استدلال: بعض لوگ اس حدیث کو پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إن نزلتم بقوم فامر لكم بما ينبغي للضيف فاقبلوا فإن لم يفعلوا فخذوا منهم حق الضيف.» ”اگر تم کسی قوم کے پاس پڑاؤ ڈالو اور تمہیں مہمان کے شایان شان ضیافت مل جائے تو قبول کر لو، اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے حق مہمان (زبردستی) لو۔“[صحيح بخاري:2461] اس حدیث سے استدلال کر کے کہا جاتا ہے کہ اس حدیث کے پیشِ نظر مذکورہ واقعہ میں صحابہ کرام نے بکریاں وصول کیں۔ لیکن ایسا کہنا سراسر غلط ہے، کیوں کہ: ➊ اس حدیث پر عمل کی صورت میں تو صحابہ کرام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک پر عمل کرتے ہوئے ان لوگون سے فوراً اور زبردستی حق ضیافت وصول کرتے۔ اس کے لیے دم کر کے بکریاں لینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر ان کے سردار کو موذی چیز نہ ڈستی تو کیا صحابہ کرام مذکورہ بالا فرمان نبوی کی (معاذ اللہ) مخالفت ہی کرتے!
➋ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ صحابہ کرام نے حق ضیافت ہی لیا تھا، قرآن کریم کی اجرت نہیں، تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا کیا مطلب ہو گا، جو آپ نے یہ واقعہ سننے کے بعد ارشاد کیا کہ قرآن کریم پر لی جانے والی اجرت سب سے بہترین ہوتی ہے؟ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے قرآن کی اجرت قرار دے رہے ہیں تو کسی امتی کا اسے حق ضیافت قرار دینا کیسے درست ہو سکتا ہے؟
➌ ویسے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی عام ہے اور یہ واقعہ خاص۔ اگر بالفرض بکریاں حق ضیافت بھی تھیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان قرآن کریم کی اجرت کو جائز قرار دے رہا ہے، جو کہ ہمارے لیے واضح دلیل ہے۔
٭ حافظ ابوعبداللہ، محمد بن احمد بن عثمان ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہمارے بعض اصحاب نے اس حدیث کا جواب یہ دیا ہے کہ۔۔۔ حق ضیافت فرض تھا، لیکن انہوں نے ضیافت نہ کی۔۔۔ میں کہتا ہوں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی فرمان پر عمل کریں گے، نہ کہ خاص سبب پر۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (عمومی طور پر) فرمایا: بلاشبہ سب سے بہترین چیز جس پر تم اجرت لے سکتے ہو، وہ کتاب اللہ ہے۔ [تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق:132/2، دارالوطن، الرياض،2000ء]
اگر عدل و انصاف کا خون اور اسلاف امت کی تکذیب کرتے ہوئے بزور تاویل اس حدیث میں معاوضے کو حق ضیافت قرار دے بھی لیا جائے تو سیدنا علاقہ بن صحار رضی اللہ عنہ کی حدیث کا کیا ہو گا؟ انہوں نے بھی دم کے معاوضے میں ایک سو بکریاں لیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا تو آپ نے اسے دم ہی کی اجرت قرار دیتے ہوئے خلعت جواز پہنائی۔ انہوں نے نہ تو حق ضیافت طلب کیا نہ لوگوں نے انہیں دینے سے انکار کیا!
کتابت مصاحف اور ان کی خرید و فروخت: دور قدیم میں مصاحف کی نقول تیار کرنے کے لیے کتابت کروائی جاتی تھی، موجودہ دور میں ایک دفعہ کتابت اور پھر طباعت کروائی جاتی ہے۔ اس میں بھی اجرت دینی لینی پڑتی ہے، جب کہ نقول تیار ہونے کے بعد بھی خرید و فروخت کے مرحلے سے گزر کر ہی عوام الناس تک پہنچتی ہیں۔ اس اجرت کے جواز پر صحیح بخاری و صحیح مسلم کی مذکورہ احادیث سے دلیل لیتے ہوئے: ◈ معروف فقیہ و محدث، حافظ، ابو سلیمان، حمد بن محمد، خطابی رحمہ اللہ (319۔388ھ) فرماتے ہیں: «وفي الحديث دليل علي جواز بيع المصاحف واخذ الاجرة علي كتبها، وفيه اباحة الرقية بذكر الله في اسمائه، وفيه اباحة اجر الطبيب والمعالج، وذلك ان القرائة والرقية والنفث فعل من الافعال المباحة، وقد اباح له اخذ الاجرة عليها، فكذلك ما يفعله الطبيب من قول ووصف وعلاج، فعل لا فرق بينها۔» ”اس (دم پر بکریاں لینے والی) حدیث میں یہ دلیل ہے کہ مصاحف کی خرید و فروخت اور ان کی کتابت پر اجرت لینا جائز ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت ناموں کو پڑھ کر دم کرنا جائز ہے، نیز طبیب و معالج کی اجرت کا بھی جواز ہے، کیوں کہ قراءت، دم اور پھونک جائز ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کاموں پر اجرت کو جائز قرار دیا ہے۔ اسی طرح طبیب جو مشورے (بیماری کی) تفصیلات اور علاج تجویز کرتے ہیں، وہ بھی فعل ہیں۔ اس فعل اور ان افعال میں کوئی فرق نہیں، جن پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجرت کو جائز قرار دیا۔“[معالم السنن:101/3، المطبعة العلميّة، حلب، 1932ء]
صحابہ و تابعین کی متفقہ رائے: ◈ امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: «سألت معاوية عن أجر المعلم، فقال: أري له أجرا، قال شعبة: وسألت الحكم، فقال: لم أسمع أحدا يكرهه.» ”میں نے معاویہ بن قرہ تابعی رحمہ اللہ سے معلم کی اجرت کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے فرمایا: میں اس کے لیے اجرت کو جائز سمجھتا ہوں۔ میں (شعبہ) نے حکم بن عتیبہ تابعی سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نے کسی بھی (صحابی یا تابعی) فقیہ کو اسے ناپسندیدہ کہتے نہیں سنا۔“[مسند على بن الجعد، الرقم:1103۔1105، موسسة نادر، بيروت، 1990، و سنده صحيح]
◈ خالد حذا تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: «سألت أبا قلابة عن المعلم يعلم، ويأخذ أجرا، فلم يربه بأسا.» ”میں نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید تابعی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ ایک معلم تعلیم دے کر اجرت لیتا ہے، تو (یہ ناجائز ہے؟)، لیکن انہوں نے اس میں کوئی حرج خیال نہیں کیا۔“[المصنف فى الأحاديث ولآثار:340/4، الرقم:20831، مكتبة الرشد، الرياض 1409ه، وسنده صحيح] ↰ بعض اہل علم نے اجرت نہ لینے کو اختیار کیا، تو اسے حرام سمجھنے کی وجہ سے نہیں، بلکہ نہ لینے کو بہتر سمجھنے کی وجہ سے۔ البتہ اسے حرام قرار دینے کا نظریہ صحابہ و تابعین میں سے کسی ایک نے بھی اختیار نہیں کیا۔
قارئین ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ اہل سنت اتفاقی طور پر دینی امور پر اجرت کو جائز کہتے ہیں۔ صرف متقدمین احناف اس کو ناجائز کہتے ہیں۔ ◈ شارح صحیح بخاری، حافظ، ابوالفضل، احمد بن علی بن محمد، ابن حجر، عسقلانی رحمہ اللہ (773۔852ھ) فرماتے ہیں: «وقد نقل عياض جواز الاستئجار لتعليم القرآن عن العلماء كافة، إلا الحنفية.» ”قاضی عیاض رحمہ اللہ نے قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت کا جائز ہونا تمام علمائے کرام سے نقل کیا ہے، سوائے احناف کے۔“[فتح الباري شرح صحيح البخاري:213/9، دار المعرفة، بيروت، 1379ه]
اور یہ متقدمین احناف بھی قرآنی دم کی اجرت لینا جائز سمجھتے ہیں، جیسا کہ: ◈ علامہ، ابو جعفر، احمد بن محمد بن سلامہ، طحاوی رحمہ اللہ (238۔ 321ھ) سے نقل کرتے ہوئے علامہ، عینی حنفی (762۔855ھ) لکھتے ہیں: «وقال الطحاوي: ويجوز الأجر على الرقى، وإن كان يدخل فى بعضه القرآن.» ”امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: دم کی اجرت لینا جائز ہے، اگرچہ بعض دم قرآن کریم پر مشتمل ہوتے ہیں۔“[عمدة القاري شرح صحيح بخاري 96/12، دار احياء التراث العربي، بيروت]
ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 79، حدیث/صفحہ نمبر: 13
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 773
´آبپاشی اور زمین کو ٹھیکہ پر دینے کا بیان` سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک سب سے زیادہ مستحق کام جس کی اجرت لی جائے کتاب اللہ ہے۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 773»
تخریج: «أخرجه البخاري، الإجارة، باب ما يعطي في الرقية علي أحياء العرب بفاتحة الكتاب، قبل حديث:2276.»
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی تعلیم اور کتابت و طباعت وغیرہ کا معاوضہ لینا جائز ہے۔ امام شافعی‘ امام مالک اور امام اسحاق رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے‘ البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک تعلیم قرآن کی تنخواہ لینا ناجائز ہے‘ تاہم اگر کوئی آدمی کسی سے طے کیے بغیر تعلیم حاصل کرتا ہے اور اپنی مرضی سے استاد کی مالی امداد کرتا ہے تو اسے کسی نے ناجائز نہیں کہا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري:۴ /۵۷۱- ۵۷۳)
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 773
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3900
´جھاڑ پھونک کیسے ہو؟` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی ایک جماعت ایک سفر پر نکلی اور وہ عرب کے قبیلوں میں سے ایک قبیلہ میں اتری، ان میں سے بعض نے آ کر کہا: ہمارے سردار کو بچھو یا سانپ نے کاٹ لیا ہے، کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو انہیں فائدہ دے؟ تو ہم میں سے ایک شخص نے کہا: ہاں قسم اللہ کی میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں لیکن ہم نے تم سے ضیافت کے لیے کہا تو تم نے ہماری ضیافت سے انکار کیا، اس لیے اب میں اس وقت تک جھاڑ پھونک نہیں کر سکتا جب تک تم مجھے اس کی اجرت نہیں دو گے، تو انہوں نے ان کے لیے بکریوں کا ایک ریوڑ اجرت ٹھہرائی، چنانچہ وہ آئے ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الطب /حدیث: 3900]
فوائد ومسائل: 1) مسافر مہمان کی ضیافت واجب ہے بالخصوص جہاں اور وسائل مہیا نہ ہوں 2) مشرک کا علاج اور اسے دم کرنا جائز ہے۔
3) اگر کو ئی حقِ ضیافت سے بخل کرے تو اس سے اپنا حق وصول کر لینا جائز ہے۔ جیسے کہ گذشتہ احادیث 3748 وغیرہ میں گزرا ہے۔
4) دم کرنے کے لیئے معاوضہ طے کر لینا جائز ہے۔
5) مشکوک رزق سے پر ہیز کرنا واجب ہے۔
6) سورۃ فا تحہ ایک شاندار تیر بہدف دم ہے۔ اس سورۃ کو سورۃ شفا بھی کہتے ہیں، دم کا تعلق دم کرنے والے کے ایمان یقین اور عز یمت سے ہے اور اسی طرح دم کروانے والا بھی۔ اس لیئے اگر اجتہادی اور قیاسی دم جھاڑ شرعی اُصول و ضوابط کے منافی نہ ہوں تو اس سے استفادہ میں کو ئی ہرج نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3900
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2156
´جھاڑ پھونک کرنے والے کی اجرت کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم تیس سواروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ (فوجی ٹولی) میں بھیجا، ہم ایک قبیلہ میں اترے، اور ہم نے ان سے اپنی مہمان نوازی کا مطالبہ کیا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا پھر ایسا ہوا کہ ان کے سردار کو بچھو نے ڈنک مار دیا، چنانچہ وہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے: کیا آپ لوگوں میں کوئی بچھو کے ڈسنے پر جھاڑ پھونک کرتا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، میں کرتا ہوں لیکن میں اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک تم ہمیں کچھ بکریاں نہ دے دو، انہوں نے کہا: ہم آپ کو تیس بکریاں دیں گے، ہم نے اسے قبول کر لیا، اور میں نے سات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2156]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) رقیہ کا مطلب کوئی چیز پڑھ کر مریض پر پھونک مارنا ہے تا کہ اس کی برکت سے شفا ہو جائے اردو میں اسے دم جھاڑ کہتے ہیں۔
(2) وہ دم جائز ہے جس میں قرآن کی آیات، مسنون دعائیں یا ایسے الفاظ پڑھے جائیں جن کا مطلب خلاف شریعت نہ ہو۔ جس دم کے الفاظ خلاف شریعت ہوں وه جائز نہیں، جیسے (لِي خَمْسَةٌ أُطْفِيْ بِهَا حَرَّ الْوَبَآءِ الْحَاطِمَه۔ اَلْمُصْطَفٰي وَالْمُرْتَضيٰ وَابْنَاهُمَا وَالْفَاطِمَه) ”میں پانچ حضرات کے واسطے سے تباہ کن وبا کی حرارت بجھاتا ہوں، مصطفیٰﷺ، علی مرتضیٰ ان کے دو بیٹے (حسن و حسین) اور فاطمہ۔“ اس طرح کسی عجمی زبان کے وہ الفاظ جن کا مطلب معلوم نہ ہو، ان سے بھی پرہیز کرنا چاہیے ممکن ہے اس عبارت میں شرکیہ مفہوم موجود ہو، جیسے أَهْيَا إِشْرَاهِيَا وغیرہ۔
(3) اسلامی حکومت جب بھی کسی کو دور دراز علاقے میں کسی فرض کی ادائیگی کے لیے بھیجے اور اسے راستے میں کسی سے مدد لینے کی ضرورت پیش آجائے تو عوام کا فرض ہے کہ اسے کھانا وغیرہ مہیا کریں۔ حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہم نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ ہمیں (کسی کام سے) بھیجتے ہیں، راستے میں ہم کسی بستی یا قبیلے والوں) کے ہاں ٹھہرتے ہیں، وہ ہماری مہمانی نہیں کرتے تو آپﷺ (اس صورت میں) کیا حکم فرماتے ہیں؟ رسول اللہﷺ نے ہمیں فرمایا: ”جب تم لوگ کسی قوم کے ہاں ٹھہرو اور وہ تمہارے لیے وہ کچھ مہیا کریں جو مہمان کے لیے (مہیا کیا جانا) مناسب ہے تو قبول کر لو۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے تم خود ہی مہمانی کا وہ حق وصول کرلو جو انہیں ادا کرنا چاہیے تھا۔“(صحيح البخاري، الأدب، باب إكرام الضعيف وخدمته……، حديث: 2137)
(4) صحابہ کرام نے مذکورہ بالا قانون کے مطابق کھانا طلب کیا تھا، ان لوگوں نے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے دوسرے طریقے سے ان سے حق دلوادیا۔
(5) ۔ صحابۂ کرام بالکل مطمئن ہو جائیں اور ان کا تذبذب دور ہو جائے۔
(8) بعض اوقات ہدیہ مانگ کرلے لینا بھی جائز ہوتا ہے جب اس میں کوئی مصلحت ہو، تاہم دم جھاڑ کو کاروبار بنانا مناسب نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2156
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2276
2276. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے کچھ صحابہ کسی سفر پر روانہ ہوئے۔ جاتے جاتے انھوں نے عرب کے ایک قبیلے کے پاس پڑاؤکیا اور چاہا کہ اہل قبیلہ ان کی مہمانی کریں مگر انھوں نے اس سے صاف انکار کردیا۔ اسی دوران میں اس قبیلے کے سردارکو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا۔ ان لوگوں نے ہر قسم کا علاج کیا مگر کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی۔ کسی نے کہا: تم ان لوگوں کے پاس جاؤ جو یہاں پڑاؤ کیے ہوئے ہیں۔ شاید ان میں سے کسی کے پاس کوئی علاج ہو، چنانچہ وہ لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے لوگو!ہمارےسردار کو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا ہے اور ہم نے ہر قسم کی تدبیر کی ہے مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا، کیا تم میں سے کسی کے پاس کوئی چیز (علاج) ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا: اللہ کی قسم! میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں، لیکن واللہ!تم لوگوں سےہم نے اپنی مہمانی کی خواہش کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2276]
حدیث حاشیہ: مجتہد مطلق، امام المحدثین حضرت امام بخاری ؒ نے ا س باب اور روایت کردہ حدیث کے تحت بہت سے مسائل جمع فرما دیئے ہیں۔ اصحاب نبوی چوں کہ سفر میں تھے اور اس زمانے میں ہوٹلوں کا کوئی دستور نہ تھا۔ عربوںميں مہمان نوازی ہی سب سے بڑی خوبی تھی۔ اسی لیے صحابہ کرام ؓ نے ایک رات کی مہمانی کے لیے قبیلہ والوں سے درخواست کی مگر انہوں نے انکار کر دیا اور یہ اتفاق کی بات ہے کہ اسی اثنا میں ان قبیلے والوں کا سردار سانپ یا بچھو سے کاٹا گیا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ایک قول نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سردار کی عقل میں فتور آگیا تھا۔ بہرحال جو بھی صورت ہو وہ قبیلہ والے صحابہ کرام ؓ کے پا س آکر دم جھاڑ کے لیے متمنی ہوئے اور حدیث ہذا کے راوی حضرت ابوسعید ؓ نے آمادگی ظاہر فرمائی اور اجرت میں تیس بکریوں پر معاملہ طے ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اس سردار پر سات بار یا تین بار سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا۔ اور وہ سردار اللہ کے حکم سے تندرست ہو گیا اور قبیلہ والوں نے بکریاں پیش کر دیں جن کی اطلاع صحابہ کرام ؓ نے آنحضرت ﷺ کو پیش کی۔ اور آپ ﷺ نے ان کی تائید فرمائی اور ساتھ ہی ان کی دلجوئی کے لیے بکریوں کی تقسیم میں اپنا حصہ مقرر کرنے کا بھی ارشاد فرمایا۔ شعبہ کی روایت کو ترمذی نے وصل کیا ہے اس لفظ کے ساتھ۔ اور حضرت امام بخاری ؒ نے بھی طب میں عنعنہ کے ساتھ ذکرکیا ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قرآن مجید کی آیتوں اوراسی طرح دیگر اذکار و ادعیہ ماثورہ کے ساتھ دم کرنا درست ہے۔ دیگر روایت میں صاف مذکور ہے لا بأسَ بالرقيِ مَالم یکُن فیهِ شرك شرکیہ الفاظ نہ ہوں تو دم جھاڑا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر جو لوگ شرکیہ لفظوں سے اور پیروں فقیروں کے نام سے منتر جنتر کرتے ہیں، وہ عند اللہ مشرک ہیں۔ ایک موحد مسلمان کو ہرگز ایسے ڈھکوسلوں میں نہ آنا چاہئے اور ایسے مشرک و مکار تعویذ و منتر والوں سے دور رہنا چاہئے کہ آج کل ایسے لوگوں کے ہتھکنڈے بہت کثرت کے ساتھ چل رہے ہیں۔ اس حدیث سے بعض علماءنے تعلیم قرآن پر اجرت لینے کا جواز ثابت کیا ہے۔ صاحب المہذب لکھتے ہیں: و من أدلة الجواز حدیث عمر المتقدم في کتاب الزکوٰة أن النبي صلی اللہ علیه وسلم قال له ما أتاك من هذا المال من غیر مسئلة و لا إشراف نفس فخذہ و من أدلة الجواز حدیث الرقیة المشهور الذي أخرجه البخاري عن أبي عباس و فیه أن أحق ما أخذتم علیه أجرا کتاب اللہ۔ (ص: 268) اور جواز کے دلائل میں سے حدیث عمر ؓ ہے جو کتاب الزکوۃ میں گزر چکی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا تھا کہ اس مال میں سے جو تمہارے پاس بغیر سوال کئے اور بغیر تانکے جھانکے خود آئے، اس کو قبول کرلو اور جواز کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جس میں دم کرنے کا واقعہ مذکور ہے جس کو امام بخاری نے ابن عباس ؓ سے نکالا ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ بلاشک جس پر تم بطور اجر لینے کا حق رکھتے ہو وہ اللہ کی کتاب ہے۔ صاحب لمعات لکھتے ہیں: و فیه دلیل علی أن الرقیة بالقرآن و أخذ الأجرة علیها جائز بلا شبھة۔ یعنی اس میں اس پر دلیل ہے کہ قرآن مجید کے ساتھ دم کرنا اور اس پر اجرت لینا بلاشبہ جائز ہے۔ ایسا ہی واقعہ مسند امام احمد اور ابوداؤد میں خارجة بن صلت عن عمه کی روایت سے مذکور ہے راوی کہتے ہیں: أَقْبَلْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْنَا عَلَى حَيٍّ مِنَ الْعَرَبِ، فَقَالُوا: إِنَّا أُنْبِئْنَا أَنَّكُمْ قَدْ جِئْتُمْ مِنْ عِنْدِ هَذَا الرَّجُلِ بِخَيْرٍ، فَهَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ دَوَاءٍ أَوْ رُقْيَةٍ فَإِنَّ عِنْدَنَا مَعْتُوهًا فِي الْقُيُودِ؟ قَالَ: فَقُلْنَا: نَعَمْ قَالَ: فَجَاءُوا بِمَعْتُوهٍ فِي الْقُيُودِ، قَالَ: فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ غُدْوَةً، وَعَشِيَّةً، كُلَّمَا خَتَمْتُهَا أَجْمَعُ بُزَاقِي ثُمَّ أَتْفُلُ فَكَأَنَّمَا نَشَطَ مِنْ عِقَالٍ، قَالَ: فَأَعْطَوْنِي جُعْلًا، فَقُلْتُ: لَا، حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «كُلْ فَلَعَمْرِي مَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةِ بَاطِلٍ لَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةِ حَقٍّ»(رواہ أحمد و أبوداود) مختصر مطلب یہ ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت سے جدا ہو کر ایک عرب قبیلہ پر سے گزرے۔ ان لوگوں نے ہم سے کہا کہ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ تم اس آدمی کے پاس سے کچھ نہ کچھ خیر لے کر آئے ہو۔ یعنی رسول کریم ﷺ سے قرآن مجید اور ذکر اللہ سیکھ کر آئے ہو۔ ہمارے ہاں ایک دیوانہ بیڑیوں میں مقید ہے۔ تمہارے پاس کوئی دوا یا دم جھاڑ ہو تو مہربانی کرو۔ ہم نے کہا کہ ہاں! ہم موجود ہیں۔ پس وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ایک آدمی کو لائے اور میں نے ا س پر صبح و شام تین روز تک برابر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا۔ میں یہ سورۃ پڑھ پرھ کر اپنے منہ میں تھوک جمع کرکے اس پر دم کرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ مریض اتنا آزاد ہو گیا کہ جتنا اونٹ اس کی رسی کھولنے سے آزاد ہوجاتاہے یعنی وہ تندرست ہو گیا۔ پس ان قبیلہ والوں نے مجھ کو اجرت دینا چاہی تو میں نے آنحضرت ﷺ سے اجازت طلب کی۔ آپ نے فرمایا کہ لوگ تو جھوٹ موٹ فریب دے کر دم جھاڑا سے لوگوں کا مال کھاتے ہیں، تم نے تو حق اور سچا دم کیا ہے جس پر کھانا حق ہے جو حلال ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جھاڑ پھونک کے بہانہ سے غلط قسم کے لوگوں کی کثرت بھی پہلے ہی سے چلی آرہی ہے۔ اور بہت سے نادان لوگ اپنی طبعی کمزوری کی بناءپر ایسے لوگوں کا شکار بنتے چلے آرہے ہیں۔ تاریخ میں اقوام قدیم کلدانیوں، مصریوں، سامیو ں وغیرہ وغیرہ کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ وہ لوگ بیشتر تعداد میں دم، جھاڑ، پھونک پھانک منتر، جنتر کرنے والو ں کے زبردست معتقد ہوتے تھے۔ اکثر تو موت و حیات تک کو ایسے ہی مکار دم جھاڑ کرنے والو ں کے ہاتھوں میں جانتے تھے۔ صد افسوس کہ امت مسلمہ بھی ان بیماریوں سے نہ بچ سکی اور ان میں بھی منتر جنتر کے ناموں پر کتنے ہی شرکیہ طور طریقے جاری ہو گئے۔ اور اب بھی بکثرت عوام ایسے ہی مکار لوگوں کا شکار ہیں۔ کتنے ہیں نقش و تعویذ لکھنے والے صرف ہندسوں سے کام چلاتے ہیں۔ جن کو خود ان ہندسوں کی حقیقت کا بھی کوئی علم نہیں ہوتا۔ کتنے ہی صرف پیروں، درویشوں، فوت شدہ بزرگوں کے نالکھ کر دے دیتے ہیں۔ کتنے یا جبرئیل، یا میکائیل یا عزرائیل لکھ کر استعمال کراتے ہیں۔ کتنے من گھڑت شرکیہ دعائیں لکھ کر خود مشرک بنتے اور دوسروں کو مشرک بناتے ہیں کتنے حضرت پیر بغدادی ؒ کے نام کی دہائی لکھ کر لوگوں کو بہکاتے رہتے ہیں۔ الغرض مسلمانوںکی ایک کثیر تعداد ایسے ہتھکنڈوں کی شکار ہے، پھر ان تعویذ گنڈہ کرنے والے اور لوگوں کا مال اس دھوکہ فریب سے کھانے والے غور کریں کہ وہ اللہ اورا س کے حبیب ﷺ کو قیامت کے دن کیا منہ دکھلائیں گے۔ آج 29 ذی الحجہ1389ھ کو مقام ابراہیم کے قریب بوقت مغرب یہ نوٹ لکھا گیا۔ اور بعونہ تعالیٰ2 صفر1390ھ کو مدینہ منورہ مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کے چپوترہ پر بیٹھ کر نظر ثانی کی گئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2276
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2276
2276. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے کچھ صحابہ کسی سفر پر روانہ ہوئے۔ جاتے جاتے انھوں نے عرب کے ایک قبیلے کے پاس پڑاؤکیا اور چاہا کہ اہل قبیلہ ان کی مہمانی کریں مگر انھوں نے اس سے صاف انکار کردیا۔ اسی دوران میں اس قبیلے کے سردارکو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا۔ ان لوگوں نے ہر قسم کا علاج کیا مگر کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی۔ کسی نے کہا: تم ان لوگوں کے پاس جاؤ جو یہاں پڑاؤ کیے ہوئے ہیں۔ شاید ان میں سے کسی کے پاس کوئی علاج ہو، چنانچہ وہ لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے لوگو!ہمارےسردار کو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا ہے اور ہم نے ہر قسم کی تدبیر کی ہے مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا، کیا تم میں سے کسی کے پاس کوئی چیز (علاج) ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا: اللہ کی قسم! میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں، لیکن واللہ!تم لوگوں سےہم نے اپنی مہمانی کی خواہش کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2276]
حدیث حاشیہ: (1) سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کرنا اور اس کے عوض اجرت لینا جائز ہے جیسا کہ اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔ دوسری روایات میں صراحت ہے کہ دم کرنے والے نے تیس بکریاں لینے پر معاملہ طے کیا تھا۔ ان بکریوں کا مالک وہ اکیلا تھا، البتہ ان کو تقسیم کرنا صرف اخلاقی طور پر مستحسن تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی تسلی کے لیے فرمایا: ”ان بکریوں میں میرا بھی حصہ رکھو۔ “ تاکہ انھیں مزید یقین ہوجائے کہ مذکورہ مال ان کے لیے حلال اور پاکیزہ ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآنی آیات کو جھاڑ پھونک یادم کے طور پر پڑھنا جائز ہے، اسی طرح وہ منتر جس کے الفاظ قرآن وحدیث میں نہیں آئے لیکن ان کا مفہوم واضح ہے اور وہ قرآن وحدیث کے خلاف نہیں انھیں عمل میں لانا بھی جائز ہے۔ (3) تعلیم قرآن پر اجرت کے متعلق ہمارا رجحان یہ ہے کہ یہ جائز ہے اور اجرت قرآن پڑھانے کی نہیں ہوتی بلکہ معلم کو پابند کرنے کے عوض ہوتی ہے کیونکہ یہ پابندی اسے باندھ دیتی ہے اور وہ آسانی کے ساتھ کہیں آجا نہیں سکتا۔ اس بنا پر اسے جو کچھ دیاجائے گا وہ اس کے کام کی اجرت نہیں بلکہ اس وقت کا معاوضہ ہے جو اس نے تعلیم قرآن کےلیے دیا ہے، اس بنا پر جہاں اس کے متعلق سخت وعید ہے اس کا محل کچھ اور ہے اور جس چیز کی اجرت مباح کی گئی ہے اس کی صورت اور ہے۔ والله أعلم.(4) آخر میں امام بخاری ؒ نے اس حدیث کی ایک مزید سند ذکر کی ہے جسے امام ترمذی ؒ نے بیان کیا ہے۔ امام بخاری نے بھی اسے روایت کیا ہےلیکن اس میں تصریح سماع نہیں۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5749) اس بنا پر ہم نے امام ترمذی کا حوالہ دیا ہے کیونکہ اس میں تصریح سماع ہے۔ (جامع الترمذي، الطب، حدیث: 2064)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2276
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5007
5007. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا ہم ایک سفر میں تھے تو (ایک قبیلے کے نزدیک) ہم نے پڑاؤ کیا۔ وہاں ایک لونڈی آئی اور کہنے لگی کہ قبیلے کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے اور ہمارے قبیلے کے مرد موجود نہیں ہیں کیا تم میں سے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے؟ ہم میں سے ایک شخص اس کے ساتھ جانے والا ہے؟ ہم میں سے ایک شخص اس کے ساتھ جانے کے لیے کھڑا ہوا، حالانکہ ہم اسے جھاڑ پھونک والا خیال نہیں کرتے تھے، چنانچہ اس نے دم کیا تو سردار تندرست ہو گیا اور اس نے (شکرانے کے طور) تیس (30) بکریاں دینے کا حکم دیا، نیز ہمیں دودھ بھی پلایا۔ جب وہ شخص واپس آیا تو ہم نے اس سے پوچھا۔ کیا تم واقعی کوئی منتر جانتے اور تیرے پاس اچھا سا دم ہے؟ اس نے کہا: نہیں میں نے تو صرف فاتخہ پڑھ کر اس پر دم کر دیا تھا۔ ہم نے کہا: جب تک ہم نبی ﷺ سے اس کے متعلق کچھ پوچھ نہ لیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5007]
حدیث حاشیہ: 1۔ دم کرنے والے خود راوی حدیث حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جیسا کہ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5736) 2۔ اس حدیث سے سورہ فاتحہ کی فضیلت اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی اور صفات علیا ہیں۔ یہ نہ صرف مضامین کے اعتبار سے بلند پایہ ہیں بلکہ دم جھاڑ کے بھی کام آتے ہیں۔ بعض روایات میں اس کا نام سورہ رقیہ بھی آیا ہے۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5736) 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دم جھاڑ کرنا جائز ہے اور اس پر اجرت بھی لی جا سکتی ہے لیکن اسے پیشہ بنانا اور ذریعہ معاش قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5007