عکرمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله عنہما کے پاس پچھنا لگانے والے تین غلام تھے، ان میں سے دو ابن عباس اور ان کے اہل و عیال کے لیے غلہ حاصل کرتے تھے اور ایک غلام ان کو اور ان کے اہل و عیال کو پچھنا لگاتا تھا، ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”پچھنا لگانے والا غلام کیا ہی اچھا ہے، وہ
(فاسد) خون کو دور کرتا ہے، پیٹھ کو ہلکا کرتا ہے، اور آنکھ کو صاف کرتا ہے
“۔ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرے انہوں نے یہ ضرور کہا کہ تم پچھنا ضرور لگواؤ، آپ نے فرمایا:
”تمہارے پچھنا لگوانے کا سب سے بہتر دن مہینہ کی سترہویں، انیسویں اور اکیسویں تاریخ ہے
“، آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:
”سب سے بہتر علاج جسے تم اپناؤ وہ ناک میں ڈالنے کی دوا، منہ کے ایک طرف سے ڈالی جانے والی دوا، پچھنا اور دست آور دوا ہے
“، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ میں عباس اور صحابہ کرام نے دوا ڈالی، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
”میرے منہ میں کس نے دوا ڈالی ہے؟
“ تمام لوگ خاموش رہے تو آپ نے فرمایا:
”گھر میں جو بھی ہو اس کے منہ میں دوا ڈالی جائے، سوائے آپ کے چچا عباس کے
“۔ راوی عبد کہتے ہیں: نضر نے کہا:
«لدود» سے مراد
«وجور» ہے
(حلق میں ڈالنے کی ایک دوا) ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عباد منصور ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔
۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔