(مرفوع) حدثنا ابو سلمة يحيى بن خلف البصري، حدثنا المعتمر بن سليمان، عن ابيه، عن حنش، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من جمع بين الصلاتين من غير عذر فقد اتى بابا من ابواب الكبائر ". قال ابو عيسى , وحنش هذا هو ابو علي الرحبي , وهو حسين بن قيس، وهو ضعيف عند اهل الحديث، ضعفه احمد وغيره، والعمل على هذا عند اهل العلم ان لا يجمع بين الصلاتين إلا في السفر او بعرفة، ورخص بعض اهل العلم من التابعين في الجمع بين الصلاتين للمريض، وبه يقول احمد , وإسحاق، وقال بعض اهل العلم: يجمع بين الصلاتين في المطر، وبه يقول الشافعي , واحمد , وإسحاق، ولم ير الشافعي للمريض ان يجمع بين الصلاتين.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَنَشٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ أَتَى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى , وَحَنَشٌ هَذَا هُوَ أَبُو عَلِيٍّ الرَّحَبِيُّ , وَهُوَ حُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ، وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ وَغَيْرُهُ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ إِلَّا فِي السَّفَرِ أَوْ بِعَرَفَةَ، وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ لِلْمَرِيضِ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي الْمَطَرِ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وَلَمْ يَرَ الشَّافِعِيُّ لِلْمَرِيضِ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بغیر عذر کے دو نمازیں ایک ساتھ پڑھیں وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں سے میں ایک دروازے میں داخل ہوا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حنش ہی ابوعلی رحبی ہیں اور وہی حسین بن قیس بھی ہے۔ یہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ہے، احمد وغیرہ نے اس کی تضعیف کی ہے، ۲- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ سفر یا عرفہ کے سوا دو نمازیں ایک ساتھ نہ پڑھی جائیں، ۳- تابعین میں سے بعض اہل علم نے مریض کو دو نمازیں ایک ساتھ جمع کرنے کی رخصت دی ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ بارش کے سبب بھی دو نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں۔ شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ البتہ شافعی مریض کے لیے دو نمازیں ایک ساتھ جمع کرنے کو درست قرار نہیں دیتے۔
وضاحت: ۱؎: سفر میں دو نمازوں کے درمیان جمع کرنے کو ناجائز ہونے پر احناف نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے، لیکن یہ روایت حد درجہ ضعیف ہے قطعاً استدلال کے قابل نہیں، اس کے برعکس سفر میں جمع بین الصلاتین کی جو احادیث دلالت کرتی ہیں، وہ صحیح ہیں ان کی تخریج مسلم وغیرہ نے کی ہے اور اگر بالفرض یہ حدیث صحیح بھی ہوتی تو ”عذر“ سے مراد سفر ہی تو ہے، نیز دوسرے عذر بھی ہو سکتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6025) (ضعیف جداً) (سند میں حسین بن قیس المعروف بہ حنش ضعیف بلکہ متروک ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، التعليق الرغيب (1 / 198)، الضعيفة (4581)، // ضعيف الجامع - بترتيبى - برقم (5546) //
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جداً حوش هو حسين بن قيس الواسطي وهو متروك (تق:1342)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 188
اردو حاشہ: 1؎: سفر میں دو نمازوں کے درمیان جمع کرنے کو نا جائز ہونے پر احناف نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے، لیکن یہ روایت حد درجہ ضعیف ہے قطعاً استدلال کے قابل نہیں، اس کے برعکس سفر میں جمع بین الصلاتین کی جو احادیث دلالت کرتی ہیں، وہ صحیح ہیں ان کی تخریج مسلم وغیرہ نے کی ہے اور اگر بالفرض یہ حدیث صحیح بھی ہوتی تو ’عذر‘ سے مراد سفر ہی تو ہے، نیز دوسرے عذر بھی ہو سکتے ہیں۔
نوٹ: (سند میں حسین بن قیس المعروف بہ حنش ضعیف بلکہ متروک ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 188